فلسطین: مظلومیت بمقابلہ ظلم

صابر کربلائی  ہفتہ 2 اگست 2014

بچپن میں ہر کسی نے بہت سی کہانیاں سن رکھی ہوں گی، جن میں ظالم بادشاہوں اور جابر حکمرانوں کی کہانیوں سمیت متعدد شامل ہوں گی۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے کہ جہاں مظلومیت ظلم کے مقابلے میں برسرپیکار ہے اور یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری ہے۔

1948 سے اب تک، اس وقت سے کہ جب صہیونی اسرائیلیوں نے امریکی اور برطانوی ایما پر انبیائے علیہم السلام کی سر زمین ’’فلسطین‘‘ پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد تقریباً ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ایک ہی دن میں ان کے گھروں اور کھیت کھلیانوں اور باغیچوں سے بے دخل کر کے فلسطین کے پڑوس میں بسنے والی عرب ریاستوں شام، لبنان، اردن اور مصر جانے پر مجبور کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عوام جن میں معصوم بچے، خواتین، مرد اور بزرگ شامل تھے، بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور ایک غاصب ریاست اسرائیل کو برسر پیکار لایا گیا جس نے اس دن سے لے کر آج کے دن تک مظلوم فلسطینیوں پر زندگی تنگ کردی ہے۔

جی ہاں! میں آج بات کر رہا ہوں فلسطینی پٹی غزہ کی جہاں اٹھارہ لاکھ انسان زندگی گزارتے ہیں، بلکہ زندگی کیا گزار رہے ہیں، یوں کہیے کہ اپنی زندگی سے جان چھڑائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں غاصب اسرائیل نے 2006 کے بعد سے اس وقت کے جب غزہ کے عوام نے عام انتخابات میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو ووٹ دے کر کامیاب کیا، یہی بات عالمی سامراجی قوتوں بالخصوص امریکا کو پسند نہیں آئی اور اسرائیل تو پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا، غزہ پر بڑی جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور یہ جنگ اس وقت بھی 22 روز تک جاری رہی تھی ۔

جس کے نتیجے میں صہیونی اسرائیل نے غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا تھا، ہزاروں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا تھا اور ہر وہ ظلم بپا کیا گیا تھا جو اسرائیل کرسکتا تھا، لیکن غزہ نے مزاحمت کی اور اسرائیل کو اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ اسرائیل نے غزہ میں شکست کھانے کے بعد غزہ کا محاصرہ کر دیا اور غزہ کی طرف آنیوالے سمندری راستے اور زمینی راستے پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کر دیا تاکہ دنیا بھر سے غزہ کے مظلوموں کے لیے آنیوالی امداد غزہ کے عوام تک نہ پہنچ سکے اور اس ناپاک مقصد کے لیے اسرائیل نے زمینی راستوں سے آنیوالے قافلوں کو نہ صرف روکا بلکہ ان کے ساتھ آنیوالے امدادی ساز وسامان جس میں خوراک، ادویات سمیت روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء بھی موجود تھیں۔

ان سب چیزوں کو اپنے قبضے میں لے کر ضایع کردیا اور غزہ کے مظلومین تک نہ پہنچنے دیا۔ فریڈم فلوٹیلا پر ہونے والا صہیونی حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جسے کھلے سمندر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔آج فلسطینی پٹی غزہ پر آگ و خون کی بارش جاری ہے، آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن تک پندرہ سو سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوچکی ہے۔

غزہ مظلوم ہے اور ظلم کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے، ایسی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شایع ہوچکی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی سحر اور افطار بھی خون میں غلطاں ہوئی، اسپتالوں کی ان عمارتوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جن پر صہیونی افواج نے ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپ خانے سے حملے کیے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کے گھروں کی تو بات ہی نہ کیجیے کیونکہ گھر نام کی کوئی چیز تو شاید فلسطینی عوام کے لیے بنی ہی نہیں ہے، ہزاروں ایسے مسمار شدہ گھر ہیں جن کے ملبوں تلے آج بھی معصوم بچوں کی لاشیں نکالی جا رہی ہیں، ظلم تو یہ ہے کہ ایک طرف غاصب اسرائیلی غزہ کے مظلوم عوام کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان گھروں میں موجود انسانوں کو بھی گھروں کے ساتھ ملبے تلے دبایا جارہا ہے۔

عالمی ضمیر اور انسانی حقوق کی چیمپئین تنظیموں سے سوال کیا جانا چاہیے کہ کیا ان لوگوں کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ فلسطینی ہیں؟ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو مجھے بھی ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے یہ کہنے میں فخر حاصل ہے کہ اگر فلسطینی ہونا گناہ ہے اور عالمی دہشت گرد امریکا اور اس کا پروردہ اسرائیل کسی بھی فلسطینی کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہتے تو پھر میں بھی فلسطینی ہوں، میں ہی کیا بلکہ پورا پاکستان اور یہاں بسنے والے بیس کروڑ انسان بھی اعلان کریں کہ ہم سب کے سب فلسطینی ہیں اور سب کچھ فلسطین کے لیے ہے۔ اگر فلسطینی ہونا گناہ ہے یا کوئی جرم ہے تو ہم خوشی خوشی یہ گناہ اور جرم کرنے پر تیار ہیں۔

ہمیں فخر ہو گا کہ ہم بھی ایک فلسطینی کہلواتے ہوئے دنیا کے ظالموں اور جابروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر شہادت کا سفر طے کریں۔غزہ پر حملے کا آغاز اسرائیل نے کیا لیکن سلام پیش کرنا چاہیے کہ غزہ کے ان مجاہدین کو جنھوں نے تین ہفتوں سے زائد گزر جانے کے بعد بھی غاصب اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی انتظامیہ چاہتی تھی کہ غزہ پر زمینی کنٹرول بھی حاصل کرلیا جائے اور غزہ کے عوام کو غزہ سے نکال دیا جائے تاکہ پورے فلسطین پر صہیونیوں کا قبضہ قائم ہوجائے، تاہم ان دہشت گرد ظالموں کے مقابلے میں مظلوم اپنا دفاع کرنے میں مصروف عمل ہیں اور جہاد اسلامی فلسطین سمیت حماس کی القسام بریگیڈ صہیونی دشمن کا مقابلہ کر رہی ہے، اور دنیا میں ہمشیہ یہی ہوا ہے کہ فتح تلوار پر خون کی ہوئی ہے۔

آج پوری دنیا ایک طرف تماشائی بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف غاصب اسرائیل کو کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جیسے چاہے غزہ پر اپنا تسلط قائم کر لے اور حماس کو نیست و نابود کردے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اﷲ نے تقدیر میں کچھ اور ہی لکھ رکھا ہے اور شاید جو لوگ اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو غیر مسلح کرنے اور انھیں ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ان کی یہ خواہشات ان کے ساتھ قبروں میں جا پہنچیں گی۔خلاصہ یہ ہے کہ غزہ لہو لہو ہے، صرف فلسطین ہی لہو لہو نہیں بلکہ پورا عالم اسلام لہو لہو ہے، فلسطین، مصر، لبنان، شام، لیبیا، اردن، بحرین، یمن، افغانستان ،عراق اور خود ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی عالمی صہیونزم کی سازشوں کے نشانے پر ہے، بس دنیا کے مظلوم ترین عوام آج دنیا کے بدترین ظالم ، فرعون ، نمرود، یزید جیسوں سے برسر پیکار ہیں اور امید ہے کہ فتح و نصرت حق والوں کی ہو گی اور اﷲ کا یہی وعدہ ہے کہ وہ زمین پر مظلومین اور مستضعفین کی حکومت کو قائم کر کے ہی رہے گا اور اپنے نور کو ظاہر کر کے ہی رہے گا خواہ یہ بات مشرکین اور منافقین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔