آخر کب تلک؟

مقتدا منصور  پير 24 ستمبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

حکومت نے جمعے کو یوم عشق رسولؐ منا کر عوام کے بپھرے ہوئے جذبات پر قابو پانے کی اپنی سی کوشش کی۔

ساتھ ہی ملک کے سات بڑے شہروں میں صبح سے رات گئے تک موبائل فون سروس بھی بند کر دی۔ اس سے قبل یو ٹیوب نامی اس انٹرنیٹ سائٹ پر بھی پابندی عائد کر دی، جس پر متنازعہ شرانگیز فلم موجود ہے۔ حکومت کے ان اقدامات کے کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔اس لیے حکومتی فیصلوں اور اقدامات کے جواز پر سوالات اٹھانا ضروری ہو گیا ہے۔

جہاں تک شرانگیز فلم کا تعلق ہے تو یہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہیں بنی ہے، بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جو انسانی معاشروں میں آزادیِ اظہار کا فروغ چاہتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ مختلف عالمی معاشروں میں موجود فکری رویوں یا Perception کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ دراصل امریکا اور یورپ کے آئینوں میں مذہب اور ریاست دو الگ اکائیاں ہیں۔ ان ممالک میں اکثریتی مسیحی عقائد پر بھی تنقید ہوتی رہتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد معروف فلسفی لارڈ برٹرینڈ رسل کی دو کتابیںWhy I am not a Christian اور Marriage & Morals شایع ہوئیں، جن میں براہ راست حضرت عیسیٰؑ پر تنقید کی گئی۔ اس کے علاوہ ایسی درجنوں کتابیں اور سیکڑوں مضامین شایع ہوئے ہیں، جن میں حضرت یسوع مسیحؑ کی ذات پر رکیک حملے کیے گئے ہیں۔

بتانے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم بھی اپنے رسول ﷺ کی شان میں گستاخیاں برداشت کر لیں۔ بلکہ یہ سمجھانا ہے کہ اس مسئلے کا حل پر تشدد مظاہرے، املاک کو آگ لگانا یا مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے دلیل کی بنیاد پر مغربی ممالک کی حکومتوں سے با مقصد مکالمہ کیا جائے۔ انھیں استدلال کے ساتھ یہ باور کرایا جائے کہ ان ممالک میں جن موضوعات کو قابل گرفت نہیں سمجھا جاتا، وہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کے لیے دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں۔ اس لیے آزادیِ اظہار کے ۔ قوانین میں مناسب ترامیم کر دی جائیں تو مشرق اور مغرب کے درمیان فکری خلیج کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن مسلم ممالک کے گماشتہ حکمرانوں میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ اس اہم مسئلے کی انسانی جذبات اور حقوق کی بنیاد پر پیروی یا (Advocacy) کر سکیں۔ نتیجتاً ہر چند برس بعد کوئی نہ کوئی ایسی کتاب، مضمون، تصویر یا فلم سامنے آ جاتی ہے جو تہذیبوں کے ٹکرائو کے فلسفے کی تصدیق کا سبب بن جاتی ہے۔

دوسرا مسئلہ کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر حکومت کا عوام کو میسر سہولیات پر پابندی عائد کرنا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے حکومتیں کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس اقدام سے دہشت گردی میں کمی نہیں آ سکی۔ البتہ اس پابندی کا نقصان کم آمدنی والے ان افراد کو ضرور پہنچتا ہے۔ مگر حکومت مسلسل اسی اقدام پر اصرار کرتے ہوئے ہر بار اسے دہراتی ہے۔ یومِ عشق رسولؐ کے موقعے پر ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد حکومت نے ایک بار پھر یہی حربہ استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی ہے۔
عید الفطر پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے چند گھنٹوں کے لیے موبائل فون سروس بند کی تھی۔

یوم عشقِ رسولؐ کے موقعے پر پھر یہی حربہ استعمال کیا اور اس مرتبہ پورے دن کے لیے موبائل فون سروس بند کر دی گئی۔ جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا، کیونکہ اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں میں جمعے کو ہونے والے پر تشدد واقعات اور ان مظاہروں میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی نے حکومتی اقدام کی کامیابی کی نفی کر دی ہے۔ حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی کہ موبائل فون سروس، اس وقت دنیا میں رابطہ کاری کا سستا اور مقبول ترین ذریعہ ہے۔ جس نے ٹیلی فونی رابطہ کے علاوہ مختصر پیغام رسانی(SMS) کو سہل بنا دیا ہے۔ آج کی دنیا میں کروڑوں افراد روزانہ مختصر پیغام رسانی کے ذریعے اپنے پیغامات دنیا بھر میں موجود اپنے اعزاء اور احباب تک پہنچاتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی کامیابی اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فی زمانہ اسے انتخابی مہم میں بھی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان میں حکومت اس ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اس کی مانیٹرنگ میں ناکام ہے۔ نتیجتاً جہالت پر مبنی فیصلے کر رہی ہے، جس کا نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے۔

اسی طرح حکومت کی نااہلی اور ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کا اندازہ Youtube پر بندش سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس نے متنازعہ فلم کے لنک (Link) کو بلاک کرنے کے بجائے پوری Youtube کو بند کر دیا ہے۔ حالانکہ Youtube پر اس ایک لنک کو چھوڑ کر عام لوگوں کی تفریح اور معلومات کے لیے اور بہت کچھ موجود ہے۔ یہی عمل کچھ عرصہ قبل Facebook اور Wikipedia کے ساتھ کیا گیا تھا، جن پر توہین آمیز خاکوں کی موجودگی کی بنیاد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ نہ جانے حکومتی منصوبہ ساز یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ان کے اس قسم کے اقدامات جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ اور معلومات تک رسائی کے حق کی خلاف ورزی ہیں اور ان فیصلوں سے ان کی اپنی جہل آمادگی پر مبنی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دیگر سائنسی ایجادات کے علاوہ سیٹلائٹ، انفارمیشن اور ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجیوں نے خاص طور پر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ان ٹیکنالوجیوں کے متعارف ہو جانے کی وجہ سے عام آدمی کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں بے تحاشہ سہولیات میسر ہوئی ہیں اور معلومات تک فوری رسائی ممکن ہو سکی۔ لیکن یہ طے ہے کہ ہر ایجاد بے شمار فوائد دینے کے ساتھ کچھ نقصان بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس کے نقصانات اور منفی اثرات پر کس طرح قابو پایا جائے۔ یہ انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ نقصانات کو کس حد تک کم کر کے زیادہ سے زیادہ فوائد کس طرح حاصل کرتا ہے۔ انٹرنیٹ پر جہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسی سائٹس ہیں، جو علم و آگہی اور معلومات میں گراں قدر اضافہ کا سبب بنتی ہیں اور تفریح کے گھر بیٹھے سامان مہیا کرتی ہیں، وہیں چند بے ہودہ سائٹس بھی موجود ہیں۔

جدید ٹیکنولوجی میں ایسی سائٹس یا ان کے متعلقہ لنکس (Links)کو بلاک کرنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بھی جنسی مواد پر مشتمل ایسی سائٹس کو18برس سے کم عمر کے بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاطر انھیں بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر بھی ایسے بیشمار مواد موجود ہیں، جو بعض معاشروں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان معاشروں میں ان سائٹس کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ بلکہ ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ پوری سائیٹ کو بند کرنے کے بجائے صرف متنازعہ لنک کو بلاک کر دیا جائے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران دنیا بھر میں مختلف نوعیت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ وہ آج بھی ازکار رفتہ اقدامات کا سہارا لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ان کی اپنی اہلیت اور ذہنی استعداد ہے، جس کی وجہ سے انھیں ناک سے آگے دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ امریکا میں9/11 کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ کیوں رونماء نہیں ہوا؟ اسی طرح برطانیہ میں7/7 کے بعد اس قسم کے واقعات کی خاصی بڑی حد تک کس طرح روک تھام ممکن ہو سکی؟ حالانکہ ایک عام سوچ رکھنے والا شخص بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ان ممالک نے اپنے سیکیورٹی نظام کو زیادہ فعال بنایا ہے۔ انھوں نے انٹر نیٹ پر ایک سیکنڈ کی پابندی عائد کیے بغیر اس کی مانیٹرنگ کا ایک فعال طریقہ وضع کر لیا ہے۔ اب کوئی بھی mail چیک ہوئے بغیر Receiving end تک نہیں پہنچتا۔ اسی طرح دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر قسم کی ٹیلی فون سروس کی مکمل مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ لیکن عوام کی اس سہولت تک رسائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لائیں اور فیصلے سائنسی انداز میں کریں۔ اس کے علاوہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران مغرب سے بامقصد ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کریں اور عقیدے کے حوالے سے اپنے تحفظات ان تک پہنچائیں۔ ہو سکے تو اقوام متحدہ کا تعاون بھی حاصل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔