یونس خان سے ملاقات اس بات کی یاد دہانی ہے کہ عظمت اور انکساری ایک ساتھ چل سکتی ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے سابق کپتان دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں لیکن ان کی سوچ گہری ہے یہ ان کے میدان میں جیتنے والے جذبے سے بالکل مختلف ہے، جو انھوں نے 17 سالہ شان دار کیریئر میں دکھایا۔
یونس نے 10 ہزار سے زائد ٹیسٹ رنز، 34 سنچریاں، چھے ڈبل سنچریاں، ایک ٹرپل سنچری اور تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے خلاف سنچریاں اسکور کیں۔ 100 سے زائد کیچز لیے اور 2009 کا تاریخی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کو عالمی چیمپیئن بنایا یہ سب ان کی عظمت کا ثبوت ہیں۔
اتنے بڑے کارناموں کے باوجود وہ عاجز انسان ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’کام یابیاں اپنی جگہ، مگر جب لوگ آپ کو محبت سے یاد کرتے ہیں اور حقیقی پاکستانی کہتے ہیں تو وہی اصل وراثت ہے۔‘‘
یونس نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ مردان میں خاندان کے ساتھ وقت گزارنا اور چھے بھائیوں کا ساتھ ان کے کرکٹ کے جذبے کو جِلا بخشنے کا ذریعہ بنا۔ ’’ہم سب بھائی کرکٹ کھیلتے تھے۔ میرے گھر والوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وقت ضائع کر رہا ہوں۔ انھوں نے میرا جذبہ سمجھا۔‘‘
ان کے بڑے بھائی شریف خان ان کے لیے سب کچھ تھے۔ ’’شریف بھائی کپتان، وکٹ کیپر، اوپننگ بلے باز، آف اسپنر، اور شان دار فیلڈر تھے۔ میں ہمیشہ ان کو آئیڈیل مانتا تھا۔‘‘
یونس کے خاندان نے 1980 کی دہائی میں مردان سے کراچی ہجرت کی، اور اسٹیل ملز کے قریب رہائش اختیار کی۔ 1990 کی دہائی میں کراچی کے غیرمستحکم حالات نے ان کے حوصلے کو فولادی بنا دیا۔ ’’ہاں، وہ وقت کافی مشکل تھا۔ کئی بار ٹیم کی بس پر فائرنگ ہوئی۔ ہمیں چھپنا پڑتا تھا۔ اگر ان حالات میں کرکٹ کھیلی ہو تو باقی سب آسان لگتا ہے۔‘‘
انھوں نے ملیر جمخانہ میں اپنے کرکٹ کے کیریئر کی بنیاد رکھی، جہاں وحید مرزا، طارق عالم اور راشد لطیف جیسے کھلاڑیوں نے کھیلنا شروع کیا۔ ’’اچانک میں ٹاپ کلاس کرکٹرز کے درمیان تھا، جس نے میری صلاحیتوں کو نکھارا۔‘‘
2000 میں سری لنکا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کے لیے اپنا پہلا میچ کھیلتے ہوئے جب ان سے دباؤ سنبھالنے کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ حیران ہوئے: ’’ہم نے جو کچھ دیکھا تھا، اس کے بعد تو یہ کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘
کوہلی اور اسمتھ جیسے کھلاڑیوں سے موازنوں پر یونس کا جواب تھا:’’میں موازنوں پر یقین نہیں رکھتا۔ میرا اللّہ جانتا ہے میں نے کتنی محنت کی۔ میرے مداحوں کی محبت ہی میرا اصل انعام ہے۔ البتہ، کاش ہمارے کرکٹ کے منتظمین ہماری خدمات کو بہتر انداز میں سراہتے۔‘‘
وہ اپنے آئیڈیلز میں راشد لطیف، جاوید میانداد اور عمران خان کو شامل کرتے ہیں:’’میانداد بھائی کا کھیلنے کا انداز، دباؤ میں پرفارم کرنا، اور نوجوانوں کی راہ نمائی سب کچھ مثالی تھا۔ عمران خان تو قومی ہیرو تھے جنہوں نے ایک نسل کو متاثر کیا۔‘‘
یونس کا خواب تھا کہ وہ بھی عمران خان کی طرح ورلڈ کپ جیتیں اور 2009 میں بطور کپتان انہوں نے پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دلایا: ’’خواب اگر سچائی اور محنت سے جُڑے ہوں تو حقیقت بن جاتے ہیں۔‘‘
یونس خان نہ صرف اپنے رنز، بلکہ اپنے رویے، کردار اور استقلال کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کا ایک درخشاں باب ہیں۔