اگر قانون کے ہاتھ ہوتے۔۔۔

ثناء غوری  اتوار 3 اگست 2014
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

کون سا ایسا دن ہوتا ہے جب ہمارے یہاں کوئی دردناک واقعہ جنم نہ لے، ایک المیے کی سنگینی پرانے المیے کے دکھ کو گھٹا دیتی ہے۔ سینے کو غم سے بھرتی نئی خبر ایسی ہی پرانی خبروں کا تاثر ختم کردیتی ہے، نئے دن کا سانحہ گزرے دن کے حادثے کو دل ودماغ سے محو کردیتا ہے۔

ظلم کی ہر ریت ہر رواج ہمارے یہاں موجود ہے، موت کا ہر روپ اپنی پوری دہشت اور وحشت کے ساتھ ہمیں اپنا چہرہ دکھاتا ہے، کسی کو دہشت انگیز انداز میں دی گئی موت یا کلیجہ چیر کر رکھ دینے والا کوئی سانحہ خبر کی صورت سامنے آکر آنکھیں نم کردیتا ہے، دل کو شق کردیتا ہے، لیکن یہ سانحہ۔۔۔۔۔ اف خدایا! دل ہے کہ قابو میں ہی نہیں آرہا، دماغ سائیں سائیں کر رہا ہے، اس سانحے سے گزرنے والے کا درد اپنے جسم وجاں میں محسوس ہوتا ہے تو سانس اٹکنے لگتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے قلب سے روح تک ایک خنجر پیوست ہے، جس پر جان اٹکی ہوئی ہے۔

وہ خبر موت کی ہوتی، کیسی ہی بہیمانہ موت کی، تو اتنا دکھ نہ ہوتا، لیکن یہ ایک معصوم بچے کو موت سے بھی بھیانک سزا دینے کی خبر تھی، جسے زندہ رہنے دیا گیا مگر اس سے پوری کی پوری زندگی چھین لی گئی، ’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔‘‘

صرف دس برس کے تبسم شہزاد سے اس کے ہاتھ چھین لیے گئے۔ اس کا قصور بس اتنا تھا کہ اس کے مویشی ایک زمیندار کے کھیت میں داخل ہوگئے تھے۔ جانور عقل وشعور سے محروم سہی اور ان کا رکھوالا یا چرواہا کم سن سہی، جس کے ننھے منے ہاتھ ان جانوروں کو زمیندار کے کھیت میں داخل ہونے سے نہ روک سکے، سب ٹھیک، لیکن ایک عالی نصب زمیندار کے مقدس کھیت کی توہین ہوئی تو ہوئی کیسے، سزا تو ملنی ہی تھی، سو معصوم تبسم شہزاد کے نرم ونازک ہاتھ مشین کے حوالے کردیے گئے۔ اس کے دونوں ہاتھ کٹ گئے، دونوں ہاتھ۔۔۔۔

یہ خبر ہم سب نے سنی اور پڑھی۔ ننھے تبسم شہزاد کو ہاتھوں سے محرومی کی حالت میں اسپتال کے بیڈ پر بے بسی سے لیٹے دیکھا۔ افسوس سب کو ہوا، مگر کتنے ہوں گے جنھوں نے اس درد کو محسوس کیا، جو تبسم پر گزر ہی نہیں گیا بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کی اور اس کے ماں باپ کی زندگی میں بس گیا ہے۔

اس کے ماں باپ نے جب اسے تبسم کا خوب صورت اور مسکراتا نام دیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے خوب صورت بیٹے کے چہرے سے مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے چھین لی جائے گی۔ وہ مسکراہٹ جو کسی خوش گوار لمحے کی دین ہوتی ہے، جو خوشی سے جنم لیتی ہے، اور اس معصوم سے تو کتنی ہی خوشیاں ایک ہی ہلے میں چھین لی گئی ہیں۔

تتلی کے پیچھے بھاگنے اور اسے پکڑنے کی خوشی، پھولوں کو چھوکر ان کی خوش بو ہتھیلی میں بسانے کی خوشی، ہاتھ میں بیٹ، بال یا ہاکی تھام کر رن بنانے، آؤٹ کرنے، کیچ پکڑنے اور گول کرنے کی سرشاری، ڈور تھام کر آسمان کو چھوتی پتنگ اڑانے کی مسرورکُن کیفیت، برستے پانی کو ہتھیلیوں میں بھرلینے کی مسرت، جھولے کی ڈوریاں پکڑ کر اونچی اونچی پینگیں لگانے کا سرور۔۔۔۔۔ اور رہی قلم پکڑنے کی راحت۔۔۔ تو اس کا تذکرہ میں اس لیے نہیں کروں گی کہ گاؤں کے اس غریب بچے کو یہ راحت یوں بھی کون سا مل جانی تھی، ہاں ایک امکان تھا سو اب وہ بھی نہ رہا۔

تبسم شہزاد کے درندگی کا نشانہ بننے کا حکمرانوں نے نوٹس لے لیا، اس کا سرکاری خرچے پر علاج ہورہا ہے، ملزم گرفتار کرلیا گیا ہے، سب ٹھیک، لیکن کیا تبسم کی خوشیوں بلکہ صحیح معنوں میں اس کی زندگی کے قاتل کو واقعی سزا ہوگی یا اثرورسوخ اور دولت کے طاقت ور دست وبازو اسے ہر کٹہرے سے نکال کر اور ہر سزا سے بچا کر لے جائیں گے۔ اس کا پتا وقت آنے پر ہی چلے گا، اس وقت تو غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہم کس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ایک ایسا سماج جہاں زورآوروں کو کسی کمزور پر ستم ڈھاتے ہوئے نہ قانون کا خوف ہوتا ہے نہ خدا کا، یہ امید ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیں، کیسا بھی ظلم ڈھا دیں، کیسی ہی قیامت کیوں نہ برپا کردیں ان کا پیسہ، ان کے تعلقات اور ان کی سماجی حیثیت انھیں قانون کی گرفت میں آنے سے بچا لیں گے۔ چنانچہ ان طاقت وروں کو کسی بات کی پرواہ نہیں، یہ چھوٹے چھوٹے فرعون اور نمرود قوانین کو اپنے جوتوں تلے روند کر اور کم زوروں سے اپنا من چاہا ظالمانہ سلوک کرکے اپنی خدائی کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ معمولی سی خطا پر کسی بچے پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں تو کسی عورت کو سرعام بے آبرو کر دیا جاتا ہے، کسی کی جان لے لی جاتی ہے تو کسی کو دربدر کردیا جاتا ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں، لاہور میں دس سال ہی کی ایک بچی ارم جو گھریلو ملازمہ تھی اپنی مالکن کے تشدد کا نشانہ بن کر چل بسی تھی۔ ارم پر چوری کا الزام لگاکر اس کی مالکن نے اسے لوہے کے پائپ سے اس بے دردی سے مسلسل پیٹا تھا کہ وہ جان سے چلی گئی تھی۔

یہ کون لوگ ہیں جو بچوں کے ساتھ بھی ایسی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کی نظر میں زندہ رہنے کا حق صرف طاقت ور کو ہے اور عزت صرف زور آور کی ہے، کمزور اور غریب کو یہ انسان ہی نہیں سمجھتے، لہٰذا اسے کچل ڈالنا، اس کی عزت کی دھجیاں بکھیردینا اور ذرا سی غلطی پر اس کے ساتھ انتہائی سفاکانہ سلوک سے بھی گریز نہ کرنا ان کے لیے عام سی بات ہے۔ تعلیم ان کے رویے بدل سکتی ہے، لیکن انھیں تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے، کبھی ضرورت پڑی تو بی اے ایم اے کی ڈگری خرید لائیں گے۔

رہا قانون تو وہ مضبوط اور متحرک ہوتا تو ہمارے ملک میں ایسے سانحات جنم ہی نہ لیتے کم ازکم اس شدت کے ساتھ اور اتنی بڑی تعداد میں یہ المیے نہ وقوع پذیر ہوتے۔ جہاں اتنا بڑا ظلم ہوجائے جیسا تبسم شہزاد کے ساتھ ہوا اور حکمراں ٹی وی پر خبر دیکھ کر اس کا نوٹس لیں، اس نوٹس لینے سے پہلے نہ تو مظلوم کا کوئی پوچھنے والا ہو اور نہ ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کوئی ادارہ حرکت میں آئے، تو جناب! صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں سسٹم، قانون اور انتظامیہ سرے سے موجود نہیں، کم از کم غریبوں اور بے بسوں کے لیے تو نہیں۔ ایسے میں ظلم کا نشانہ بننے والے تبسم شہزاد کے سر پہ ہاتھ رکھ کر میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ ’’بیٹا! اگر قانون کے ہاتھ ہوتے تو تمھارے بازو سلامت رہتے، قانون کے ہاتھ تو نہ جانے کب کے کٹ چکے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔