مسئلہ فلسطین اور پرائی آگ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 3 اگست 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک فلم کے منظر میں چند غنڈے ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جواب میں ایک انتہائی دبلا پتلا ہیرو وحید مراد لڑکی کو بچانے کے لیے خالی ہاتھ میدان میں کود جاتا ہے اور غنڈوں کو مار بھگاتا ہے۔ پنجابی فلموں کا موٹا تازہ گھبرو نوجوان بھی گنڈاسا ہاتھ میں لیے بندوق بردار مسلح افراد سے ’’بہن کے دوپٹے‘‘ کے نام پر ٹکرا جاتا ہے۔ امیتابھ بچن بھی بھارتی فلموں میں کسی غریب کی مدد کے لیے یا کسی کی عزت بچانے کے لیے خالی ہاتھ پرائی آگ میں کود جاتا ہے۔ ’’مدر انڈیا‘‘ میں ایک ماں اصولوں کی خاطر اپنے سگے بیٹے پر گولی چلا دیتی ہے۔

غرض دنیا کے کسی بھی ملک کی فلم یا ڈرامہ اٹھا کر دیکھ لیں، اس کے بنانے والے خواہ کسی بھی مذہب، نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، سب کی فلموں اور ڈراموں میں اصولوں کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالنا، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا شامل ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام فلموں میں ایک ہی مرکزی خیال ہوتا ہے کہ برائی کو شکست، حق کو فتح اور دنیا بھر کی تمام فلموں میں ایک ہی سبق دیکھنے والوں کو دیا جاتا ہے کہ حق کی خاطر جان لڑا دو، خواہ مظلوم تمہارا ہم مذہب، ہم زبان، ہم نظریہ نہ ہو۔

خیر و شر کا تصور فطری طور پر پوری دنیا کے انسانوں میں پایا جاتا ہے اور اسی تصور کے تحت دنیا بھر میں کسی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ جو لوگ یہ کہیں کہ فلاں ملک، خطے یا نسل وغیرہ پر ظلم ہونے کے خلاف ہم کیوں آواز بلند کریں، ہم کیوں کسی کی پرائی آگ میں کودیں، کیوں اپنا گھر خراب کریں، ایسے لوگ درحقیقت اس قانون فطرت سے انحراف کرتے ہیں جس کے تحت دنیا بھر میں فلمیں بنانے والے بھی تمام انسانوں کو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتے ہیں۔ اس انحراف کا بہت خطرناک نتیجہ ہوتا ہے کیوں کہ اس انحراف کا مطلب یہ ہے کہ آج اگر آپ کسی پر ہونے والے ظلم کے خلاف زبان نہیں کھولیں گے تو کل جب آپ پر ظلم ہوا تو اس غلط فلسفے کے تحت آپ پر ہونے والے ظلم پر بھی دیگر لوگ تماشائی بنے رہیں گے۔

اگر آپ مذکورہ بات سے اختلاف نہیں رکھتے تو پھر آپ کو ان لوگوں کی بات بھی رد کردینی چاہیے جو دنیا میں کسی ظلم پر احتجاج کرنے پر کہیں کہ یہ غلط ہے پرائی آگ میں کودنا نہیں چاہیے سب سے پہلے اپنے گھر کو دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ایسے رہنماؤں سے بھی اختلاف رکھنا چاہیے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرنا چاہیے جو اس یونیورسل (کائناتی) فلسفے سے اختلاف کریں جس کے تحت ہر ظلم کے خلاف بغیر کسی مفاد کے آواز بلند کی جاتی ہے۔

زبان، رنگ، نسل اور دیگر چیزوں سے ماورا ہوکر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی موجودگی دنیا کے ہر خطے، مذہب وغیرہ میں نظر آتی ہے۔ آنجہانی ایڈورڈ سعید نے مسلمانوں اور فلسطین میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی اور ظلم پسند یہودیوں، سی آئی اے کے کردار کو اپنی تحقیق قلمی کاوشوں سے بے نقاب کیا۔ ابوغریب اور گوانتاناموبے جیل میں ہونے والے مظالم کے شواہد غیر مسلم جرنلسٹوں نے دنیا کے سامنے لاکر امریکی حکمرانوں کو بے نقاب کیا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو نے حافظ الاسد سے بھرپور تعاون کیا۔ گزشتہ سال عاصمہ جہانگیر نے بھی فلسطین کے علاقوں کا دورہ کیا اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر رپورٹ عالمی برادری کو پیش کی۔

حال ہی میں رمضان المبارک کے مہینے میں اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کی خبریں اور فلمیں دیکھنا بھی محال تھا کہ ننھے معصوم بچوں کو ساحل سمندر پر، گھروں پر اور اسپتالوں میں بمباری کرکے مارا جا رہا تھا۔ مختصراً یہ کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان سے بڑھ کر مظالم ہوتے رہے مگر افسوس کہ اس ملک پاکستان میں کوئی قابل ذکر احتجاج بھی سامنے نہ آیا بجائے اس کے کہ عملاً ان مظلوموں کے لیے کچھ کیا جاتا۔

پاکستان سے بڑے احتجاج تو غیر مسلم ممالک میں دیکھنے میں آئے، یوں دل اپنی ان جماعتوں اور ان کے سرکردہ لیڈروں پر افسوس کر رہا تھا جو محض حکومت کا تختہ الٹنے، دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے بڑے بڑے دھرنے، مظاہرے تو کر رہے تھے اور اسلام کا نام لے کر انقلاب کی نوید بھی سنا رہے تھے مگر وہ اس فطرتی اصول کو بھی بھول گئے جس کے تحت دنیا بھر کے لوگ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور بالی ووڈ، لالی ووڈ، ہالی ووڈ سمیت دنیا بھر کے فلمی مراکز کمزور انسانوں کو بھی ظالم کے خلاف خالی ہاتھ ڈٹ جانے کا درس دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں جب فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی خبریں متواتر چلی آرہی تھیں اسی دوران راقم کے موبائل پر ڈاکٹر عافیہ کی بہن کی جانب سے جاری کردہ ایک ایس ایم ایس آیا کہ ڈاکٹر عافیہ کی قید کو 4137 دن گزر گئے، ساتھ ہی دعا کی اپیل کی گئی۔

فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر آواز بلند کرنا انسانی، اخلاقی اور ہمارا اسلامی بھائی چارے والا معاملہ بھی ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات اور ہمارے اسلاف بھی اس کی تعلیم دیتے تھے مولانا محمد علی جوہر نے تحریک خلافت چلا کر عملی تعلیم دی تو اقبال ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ جیسے پیغامات شاعری کے لیے دیے مگر ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ تو ریاست کے ایک شہری کے طور پر بھی ہے جس کے تحت جدید ریاستی حقوق کے تناظر میں حکمرانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عملاً اپنی ایک شہری کی رہائی کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اور فرض تو ان لیڈروں پر بھی کچھ کم نہیں عائد ہوتا جو اسلامی انقلاب، انصاف کے انقلاب اور دیگر انقلاب کی خوشخبریاں عوام کو صبح و شام سنا کر اپنے مظاہرے اور دھرنوں کے لیے شاہراہوں پر بلاتے ہیں اور مال و جان کی قربانی بھی عوام سے لیتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست اکثر یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی سے معمولی مسئلے پر بہت بڑا احتجاج، ہڑتال ہوجانا اور بڑے سے بڑے مسئلے پر خاموشی و سکوت طاری ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ یہ سب ’’اشاروں‘‘ پر ہوتا ہے۔

بہرکیف راقم کا خیال ہے کہ ہم ایک بہت اچھے ہمدرد انسان بننے اور اسلامی بھائی چارے کا عملی مظاہرہ نہ بھی کرسکیں تو کم ازکم فلموں کے ان ہیروز کے جیسا رول تو پیدا کرلیں کہ جو خالی ہاتھ پرائی آگ میں کود نہ پڑے مگر صدائے احتجاج تو کھل کر بلند کرے اور اس فلسفے کو مسترد کردے کہ پہلے ہمیں صرف اپنے ملک کا مسئلہ (یعنی اپنے گھر کا مسئلہ) دیکھنا چاہیے چاہے دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی آگ پرائی نہیں ہوتی، جو لوگ کسی آگ کو پرائی سمجھتے ہیں وہ آگ ایک دن ان کے اپنے گھر کو جلا دیتی ہے، عقلمند ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے گھر تک آگ پہنچنے سے قبل پرائی آگ کو اپنی آگ سمجھ کر بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔