(پاکستان ایک نظر میں) - بھلے لوگو میرا بھی بھلا کرو!

فرخ اظہار  پير 4 اگست 2014
کئی سو سال پہلے تک میں ویران تھا۔ میرے سینے پر فقط خاک اڑتی تھی۔ فوٹو فائل

کئی سو سال پہلے تک میں ویران تھا۔ میرے سینے پر فقط خاک اڑتی تھی۔ فوٹو فائل

کئی سو سال پہلے تک میں ویران تھا۔ میرے سینے پر فقط خاک اڑتی تھی۔ جنگلی پودے، گھاس پوس اور جھاڑیاں میرا وجود چاٹتی تھیں۔ ہاں، درخت اور کہیں کہیں سبزہ بھی تھا۔ سمندر اور پہاڑیاں بھی تھیں، لیکن زیادہ تر خشک اور میدانی تھا۔ پھر انسانوں نے میرے سینے پر قدم رکھ دیا۔ ان کی آمد سے بے شمار تبدیلیوں نے جنم لیا۔ انہوں نے اپنے بسنے کے لیے صفائی ستھرائی اور کاٹ چھانٹ کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے رہنے کے ٹھکانے بنائے اور کھیتی باڑی کی اور بعد میں زبردست ترقی کی۔ ان کی آبادی بڑھتی گئی۔ سڑکیں، پختہ عمارتیں بننے لگیں۔ بڑی بڑی اور بھاری مشینوں نے جھاڑیوں کو کاٹ ڈالا، گندگی صاف کی اور موسمی تغیرات، آفات سے بچنے کے لیے انتظامات ہوئے۔ الغرض بے پناہ ترقی ہوئی اور میرا وجود نکھرتا چلا گیا۔ اس عمل میں قدرتی ماحول اور مجھے بھی بہت نقصان بھی پہنچا۔ اس کا مجھے دکھ ضرور ہے، لیکن۔۔

ارے!! میں نے آپ کو اپنا نام تو بتایا نہیں۔ میں کراچی ہوں۔

آج میں آپ کے آگے اپنا دکھ بیان کرنے آیا ہوں۔ عید پر سب نے نیا اور صاف ستھرا لباس پہنا، نئے ڈیزائن کی سینڈلز پہن کر گھومے پھرے۔ عید سے چند روز قبل اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کے کام میں پیش پیش رہے۔ رنگ و روغن کروایا۔ گھر کے باہر موجود کیاری کی صفائی اور پھول پودوں کی کاٹ چھانٹ کی۔ کمروں کے پردے تبدیل کیے۔ ڈرائنگ روم کا نقشہ بدل کر دکھ دیا۔ غرض اپنی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق سبھی نے عید کی ہر طرح تیاری کی، لیکن مجھے نظر انداز کر دیا۔

عرصہ ہوا میرے برساتی نالوں کی صفائی نہیں ہوئی اور اب بارش کی وجہ سے میں کئی مشکلات میں گھر سکتا ہوں۔ میرے راستے برباد ہو چکے ہیں۔ سڑکوں پر گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی عمر پوری ہو چکی ہے۔ مجھے ترقیاتی کاموں کے نام پر جگہ جگہ سے ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ گٹروں کا منہ کھلا ہوا ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے کھدائی کے بعد گڑھے پُر نہیں کیے جاتے۔ ان کی وجہ سے حادثات ہوتے ہیں اور انسان ہی مرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میرا دل بَھر آتا ہے۔ آلودگی کا مسئلہ شدید ہو چکا ہے۔ اس طرف بھی توجہ نہیں دی جارہی۔

پینے کا صاف پانی غیر ذمہ داری سے استعمال اور اس کا ضیاع عام ہے۔ ہر طرف کچرے اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ سیوریج کا نظام ناکارہ ہو جائے تو گندا پانی گلیوں اور گزر گاہوں میں بہنے لگتا ہے۔ بارش کا پانی کئی کئی دنوں تک سڑتا رہتا ہے۔ گندے پانی اور کچرے کے سڑنے سے میرا دم گھٹتا ہے اور یہ سب مجھے بدنما بھی بناتے ہیں۔ جگہ جگہ پان کی پیکیں اور کچرا نظر آتا ہے۔ صنعتیں، اپنا فضلہ اور ٹھوس مادّے میرے سمندروں اور بے آباد جگہوں پر بہاتی اور پھینکتی ہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں۔ یہ میرے ساتھ بڑی ناانصافی اور مجھ پر ظلم کے مترادف ہے۔ میں نے آپ کو رہنے اور بسنے کی آزادی دی۔ اپنی مٹی سے آپ کی غذائی ضروریات پوری کیں۔ اپنی صاف ستھری آب و ہوا میں سانس لینے کا موقع اور بہت کچھ دیا، لیکن آپ میرے لیے کچھ نہیں کررہے۔

یہاں ایک نظام کے تحت میری حالت سنوارنے کی کوشش اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کروانا چاہیے تھا، لیکن میں برباد ہو رہا ہوں اور متعلقہ حکام خاموش ہیں۔ بلدیاتی اداروں میں تنخواہیں اور مراعات پانے والے میرے مسائل اور مشکلات سے نظریں چُرائے ہوئے ہیں۔ خدارا، میرے ساتھ انصاف کیجیے۔ میرا خیال رکھیے، کیوں کہ اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے۔

حقیقتاً کراچی شہر بلدیاتی اداروں کے افسران اور عملے کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث برباد ہو رہا ہے۔ شہری بنیادی ضروریات اور سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر افسران کی تعیناتیاں اور شہری اداروں میں بھرتیاں مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں۔ حکومت بلدیاتی نظام سے متعلق فیصلہ کرنے میں ناکام ہے اور سیاسی مفادات کی جنگ جاری ہے۔ عوام کے مسائل کا حل ان کے حقیقی نمائندوں ہی کے پاس ہے اور ان کا فیصلہ بلدیاتی الیکشن کریں گے۔

پچھلے دورِ حکومت میں حیلے بہانوں سے کام لے کر عدالتی حکم کے باوجود انتخابات انعقاد نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ اختیارات اور خصوصاً مالی وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں چاہتی۔ پچھلے دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے عوامی مسائل کے حل کے لیے جلد ازجلد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ دیگر جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی یہی آواز بلند کی جارہی ہے، جسے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی موجودہ صوبائی حکومت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔