انٹا میرے باپ کا

وسعت اللہ خان  منگل 5 اگست 2014

بڑی مچھلی کی طرح بڑی خبر بھی چھوٹی خبر کھاجاتی ہے۔جیسے کراچی کے ساحل پر بروزِ عید چونتیس سے زائد افراد کے ڈوبنے کی خبر تحریکِ انصاف کی لانگ مارچ تیاریوں نے نگل لی۔اس خبر نگل ماحول میں کسی بھی المئیے ، غفلت یا ذمے داری کا ذرا ٹھہر کے جائزہ لینا اور کیا کھویا کیا پایا کی بحث میں الجھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ خبر بھی برگر کی طرح  ٹیک اوے ڈسپوز ایبل شے ہو چکی ہے۔ خریدو، استعمال کرو، پھینک دو، نئی خرید لو۔

تو کیا یہ چونتیس سے زائد لڑکے بالے سرکاری غفلت نے مار ڈالے یا ناتجربہ کاری نے ہلاک کر ڈالے؟؟ لڑکے بالے میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ زیادہ تر مرنے والوں کی عمریں پندرہ سے تیس برس کے درمیان تھیں اور زیادہ تر کی لاشیں کوئٹہ کے نواحی علاقوں، خیبر پختون خوا اور گلگت تک گئیں جہاں سمندر نہیں ہوتا پہاڑ ہوتے ہیں۔ لہذا وہاں کے من چلوں کو سمندر کی کشش ویسے ہی دیوانہ وار کھینچتی ہے جیسے پہاڑ اہلِ کراچی سمیت میدانی علاقوں کے باسیوں کو کھینچتے ہیں۔ میڈیائی سودا بیچنے کے لیے تو یہ کہنا جائز ہے کہ انتظامی نا اہلی ان لوگوں کو ڈبو گئی لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

اچھا جی مان لیا کہ جب یہ سانحہ ہوا تو کلفٹن کے ساحل پر کوئی لائف گارڈ نہیں تھا۔ یہ بھی تسلیم کہ انتظامیہ کی جانب سے دفعہ ایک سو چوالیس نافذ نہیں تھی چنانچہ پولیس کے جو چند سپاہی وہاں ٹہل رہے ہوں گے ان کے پاس بھی غضب ناک سمندر میں نہانے کے متلاشیوں کو روکنے کا بظاہر کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔مگر کیا وجہ ہے کہ اس وقت ساحل پر کم ازکم دس ہزار بچے ، عورتیں اور جوان ٹہل رہے تھے لیکن مرے صرف چونتیس کے لگ بھگ ہی۔۔۔

تو کیا آنکھوں والوں کے لیے بھی پرسکون پانی اور بپھرے سمندر میں تمیز کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔جب ایک کمزور سی لہر پیروں تلے سے ریت نکال کے لے جاتی ہے اور آدمی خود کو چکراتا ہوا محسوس کرتا ہے تو اسے یہ اندازہ کیوں نہیں ہوپاتا کہ ایک طاقتور لہر اس کے ساتھ کیا کیا کرسکتی ہے اور وہ بھی کسی ایسے  کے ساتھ جسے تیرنا بھی نہ آتا ہو۔

مگر اس کا کیا علاج کہ جب کوئی شخص جوانی کے نشے میں ہو اور یار دوستوں کے ساتھ بھی ہو اور یہ شرط بھی لگ جائے کہ سمندر کی تو ایسی تیسی۔ دیکھتے ہیں آج کون کتنا آگے تک جاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی تجربہ کار ان بانکوں کو سمجھانے کی کوشش کرے تو الٹا اس پر فقرے کسے جاتے ہیں کہ جا اوئے بابے اپنا کام کر۔

کیا یہ سمجھنا بھی راکٹ سائنس ہے کہ جس طرح پہاڑ پر چڑھنے کے کچھ مخصوص آداب ہوتے ہیں اسی طرح سمندر سے کھلواڑ کرنے کے بھی کچھ طریقے ہوتے ہیں۔فطرت آپ کو خبردار تو کرسکتی ہے لیکن فطرت آپ کی یار تو نہیں ہوتی کہ ہر بدتمیزی برداشت کر لے۔ہوسکتا ہے کلفٹن کے واقعے کو  آپ ایک حادثہ کہیں۔مگر میرے نزدیک یہ حادثہ نہیں کامن سینس کی کمی کا المناک نتیجہ ہے۔

اور کامن سینس کی کمی کو نہ تو حکومت پورا کرسکتی ہے نہ ہی کوئی بہی خواہ۔اب ون ویلنگ کو ہی لے لیں۔موٹر سائیکل دو پہیوں پر چلانے کی چیز ہے۔ اگر آپ کسی مصروف شاہراہ پر محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ دیکھو دیکھو میں کس قدر شوخا ہوں ایک پہیہ اٹھا کے سڑک پر چنگاریاں پیدا کرتے ہوئے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کرنے یا کسی لڑکی کو متاثر کرنے کے چکر میں پڑ جائیں تو پھر سر پھٹنے یا ٹانگ اور بازو ٹوٹنے کی ذمے داری بھی تو خود ہی لیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ صدر ممنون حسین کو آ کر یہ بتانا چاہیے کہ دیکھو بیٹا ون ویلنگ بہت خطرناک شے ہے۔

جب لوڈ شیڈنگ برداشت کی حد سے بڑھ جائے تو آپ سڑک پر ٹائر جلاتے ہیں، بجلی کمپنیوں کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں، عملے کو کوٹ پیٹ دیتے ہیں، فحش نعرے بازی پر اتر آتے ہیں۔لیکن جب عین کسی مصروف بازار میں آپ ہی کا جاننے والا کوئی سلنڈروں میں گیس بھرنے کا خطرناک کاروبار شروع کردے، کسی گنجان رہائشی عمارت کے بالکل ساتھ کوئی پٹرول پمپ کھول کر سیکڑوں جانوں کو مستقل حادثاتی خطرے میں ڈال دے۔جس بس میں آپ سفر کر رہے ہیں اس کے نیچے سی این جی گیس کے چار چار بڑے بڑے بھرے سلنڈر فٹ کردے، بھلے پوری بس ایک ممکنہ بم میں ہی کیوں نہ تبدیل ہو جائے۔

آپ ہی کے بچے ون وے کی دیدہ دلیری سے خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹریفک پولیس کے بگلے پر کار کا دھواں چھوڑتے ہوئے فاتحانہ گذر جائیں۔ اپنی ہی گلی کے ہر دوسرے گھر میں کنڈے کی بجلی سے تین تین چار چار ایرکنڈیشنرز چل رہے ہوں۔کیا کبھی آپ نے ان تمام باتوں کا بطور سول سوسائٹی نوٹس لینے کی کوشش کی۔کیا آپ نے کبھی یہ سب حرکتیں کرنے والوں کے خلاف ویسا ہی ردِ عمل دکھانے کی کوشش کی جیسا کہ آپ پانی وقت پر نہ آنے ، بجلی نہ ملنے اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر حکومت کے خلاف دکھاتے رہتے ہیں۔

مگر میں اور آپ ایسا کیوں کرنے لگے؟ کہیں تعلق اور لحاظ ہمارے پاؤں کی بیڑی بن جاتا ہے۔کہیں یہ خدشہ قدم روک دیتا ہے کہ پنگا لیا تو ذاتی دشمنی نہ ہوجائے۔کہیں ہم  کچھ قدم اٹھانا بھی چاہتے ہیں تو یہ سوچ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ لعنت بھیجو جی میں کوئی خدائی فوجدار لگا ہوا ہوں۔یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔کس کس کو روئیں۔دریا میں رہنا ہے تو مگر مچھ سے بیر کیوں پالا جائے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

لہذا میڈیا ہو کہ فرد سب کے لیے سب سے آسان راہِ فرار یہی ہے کہ جو خود کرسکتے ہیں اس کی ذمے داری بھی حکومت پر ڈال کر اپنی انفرادی و اجتماعی ذمے داریوں سے فرار ہو لیا جائے۔

پچھلی گلی میں اوپر سے کوڑا پھینکنا میرا حق ہے مگر اس گلی کو صاف رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ کنڈا لگانا اور بل نہ دینا میرا حق ہے مگرچوبیس گھنٹے بجلی سپلائی کرنا حکومت کا فرض ہے۔ مصروف شاہراہ پر اسی کلو میٹر کی رفتار سے اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے الٹ جانا میرا حق ہے مگر متاثرین کو معاوضہ دینا حکومت کا فرض ہے۔ مزدور کی کم ازکم تنخواہ مقرر کرنا حکومت کا فرض ہے اور مزدور کو آدھی تنخواہ دے کر پوری تنخواہ کے واؤچر پر انگوٹھا لگوانا میرا حق ہے۔

جہیز کی حوصلہ شکنی اور ون ڈش کی حوصلہ افزائی کے لیے قانون سازی حکومت کا فرض ہے اور ان قوانین کا ایک سے ایک توڑ نکالنا میرا حق ہے۔ٹیکس وصول کرنا حکومت کا فرض ہے اور ٹیکس نہ دینا میرا حق ہے۔منہ مانگے داموں سبزی ، گوشت اور پھل خریدنا میری مجبوری ہے مگر ان مہنگائی فروشوں کو پکڑنا حکومت کا فرض ہے۔گڈ گورننس کا مطالبہ کرنا بھی میرا حق ہے اور گڈ گورننس میں اپنا حصہ نہ ڈالنا بھی میرا حق ہے۔ میری نانی مرحومہ کے بقول ’’چت بھی میری پٹ بھی میری ، انٹا میرے باپ کا ‘‘۔۔۔۔۔

جب کاروبارِ حیات و ریاست یونہی چلنا ہے تو پھر کس کا قصور، کون بے قصور سب فضول کی باتیں ہیں۔آئیے آج کے مرنے والوں کے لیے اسی طرح دعائے خیر کریں جس طرح کل مرنے والوں کے لیے کی تھی اور جیسی کل مرنے والوں کے لیے کی جائے گی۔اور پھر منہ پر دعائیہ ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ کہتے کہتے کندھے اچکاتے اپنے اپنے کاموں پر چل پڑیں کہ بس جی اس کی تو لکھی ہوئی ایسے تھی۔سمندر تو محض بہانہ بن گیا۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔