اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کا مرحلہ

عابد محمود عزام  منگل 5 اگست 2014

غزہ میں آٹھ جولائی سے شروع ہونے والی اسرائیلی درندگی کے بعد تواتر کے ساتھ جو لفظ سنا، لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، وہ ہے عالم اسلام۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ہم یہ لفظ جتنی بار سن چکے ہیں، اتنی بار تو شاید گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے دوران حکومت کو برا بھلا نہ کہتے ہوں۔

’’مجاہدین سوشل میڈیا‘‘ عالم اسلام کی بے حسی کی نشاندہی کرتے ہوئے مسلسل بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس کو بیدار کرنے میں مگن ہیں اور اس کے ساتھ مختلف تنظیموں کے رہنما بار بار عالم اسلام کو بیداری، اتحاد اور جرات کی تلقین کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ’’ فلسطین کو صیہونیت کے پنجے سے آزاد کرانا عالم اسلام کی اولین ذمے داری ہے، مظلوم فلسطینی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں عالم اسلام کو دیکھ رہی ہیں کہ شاید وہ بیدار ہوکر ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے اسرائیل کو روک دے، شاید عالم اسلام ہماری بستیوں کو ملیامیٹ کر کے ہمیں لاشوں کے تحفے دینے والے اسرائیل کا حساب چکتا کردے۔ لہٰذا عالم اسلام مشترکہ کوششوں، اسلحہ اور فوج کے ساتھ اسرائیل کے خلاف ڈٹ جائے۔‘‘

افغانستان میں طویل عرصے سے امریکا و نیٹو افواج سے برسرپیکار ملا محمد عمر نے بھی اپنے تازہ بیان میں فلسطین پر صیہونی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں پر عالم اسلام کا خاموشی اختیار کرنا انتہائی بے انصافی ہے۔ ان مظالم کی روک تھام کے لیے عالم اسلام کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سب کچھ کے باوجود نہ تو ابھی تک ہمیں کہیں دور دور ہی سہی، عالم اسلام کے عملی اقدامات دکھائی دیے اور نہ ہی عالم اسلام کی بیداری کے آثار نظر آئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام سے عملی اقدامات کی اپیلوں کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ بچپن سے ہم اسی طرح سنتے چلے آئے ہیں۔ پہلی کلاس سے ماسٹر تک پہنچتے پہنچتے بلامبالغہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار ضرور مسلمانوںکو عالم اسلام سے عملی اقدامات کی اپیل کرتے سنا ہوگا۔

کچھ یاد پڑتا ہے کہ ہم نے پہلی بار پہلی کلاس میں عالم اسلام کا لفظ سنا تھا۔ دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے کہیں کوئی معاملہ پیش آتا تو لوگوں سے سنتے کہ عالم اسلام کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے، اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، عالم اسلام کو ہر حال میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم رکوانا چاہیے اور اس کے ساتھ اکثر و بیشتر یہ بھی سنتے کہ موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلام کا بیدار ہونا ضروری ہے۔

ہم چونکہ ابھی بچے تھے اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ عالم اسلام ہے کیا شے، بار بار جس کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اس لیے خود ہی اندازہ لگاتے کہ عالم اسلام ضرور کوئی دبنگ شخصیت ہے، جو بہت زیادہ پاور فل اور پہلوان قسم کی ہوگی، سب اس سے ڈرتے ہوں گے، تبھی تو بار بار عالم اسلام سے نوٹس لینے کی فریاد کی جاتی ہے۔ ان دنوں اسکول میں ہمارے ایک لمبے تڑنگے استاد تھے، جن کے ہاتھ میں ہمارے قد سے بھی بڑھا سوٹا ہوتا تھا، جس کو وہ جب گھماتے تو بچوںکے اوسان خطا ہو جاتے۔ اگر کسی بچے کو لڑتے جھگڑتے دیکھ لیتے تو بس پھر لڑنے والے دونوں بچوں کی ایسی دھلائی کرتے کہ ان کو نانی اور نانا دونوں یاد آجاتے۔

بچے ان استاد صاحب سے اس طرح ڈرتے تھے، جس طرح چوہا بلی سے خوف کھاتا ہے اور اسرائیلی لوگ موت سے ڈرتے ہیں۔ اپنی معصومانہ اور بچگانہ سوچ میں ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عالم اسلام ضرور ہمارے استاد کی طرح کا کوئی لمبا تڑنگا ہوگا۔ پھر ایک دور وہ بھی آیا کہ جب ہم نے اپنی جیب خرچ سے مختلف قسم کی کہانیاں خرید کر پڑھنا شروع کیں،جن میں ’’ٹارزن‘‘ اور ’’سپر مین‘‘ کی کہانیاں سر فہرست تھیں۔

’’ٹارزن‘‘ اکیلا ہی جنگلات میں مختلف بڑے بڑے اور خطرناک جانوروں اور اچانک نمودار ہونے والی ماورائی مخلوقات کے ساتھ لڑتا ہے اور شیر، چیتا، ہاتھی اور دیگر جانوروں کو اکیلا ہی سبق سکھا دیتا ہے، بڑی بڑی اور مشکل مہمات سر کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ جب کہ ’’سپر مین‘‘ بھی اسی طرح کا ایک دبنگ قسم کا کردار تھا، جو ہر ایک کے ساتھ لڑ کر فتح حاصل کر لیتا ہے، بڑے سے بڑے محاذ پر بھی کوئی طاقت ’’سپر مین‘‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ہم جب اس قسم کی کہانیاں پڑھتے تو خیال کرتے کہ عالم اسلام شاید ’’ٹارزن‘‘ اور ’’سپر مین‘‘ کی طرح کے جنگجو اور طاقتور بندے ہوں گے۔ ایک زمانے میں ہم عالم اسلام کو سلطان راہی ٹائپ کا کوئی ہیرو خیال کرنے لگے تھے، کیونکہ فلموں میں اس کا گنڈاسا سیکڑوں غنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ اپنی ماں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ’’ولایت‘‘ سے گھوڑے کو دوڑا کر جہاز سے بھی جلدی پاکستان اپنی ماں کی مدد کے لیے پہنچ جاتا ہے۔

عالم اسلام کے حوالے سے ہمارے تمام اندازے تو اسی وقت غلط ثابت ہوئے جب ایک بار خود ہی استاد صاحب نے عالم اسلام کی وضاحت کی، لیکن بعد میں بڑی کلاسوں میں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی عالم اسلام بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔ دنیا میں عالم اسلام کی آبادی 1.62 ارب کے لگ بھگ ہے، جو پوری دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے اور اس کے ساتھ دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ عالم اسلام کے پاس ہے۔ عالم اسلام کے ممالک کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے، جن میں ترکی، سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، قطر، عمان، ملائیشیا، پاکستان، برونائی دارالسلام اور کویت جیسے بے بہا وسائل سے مالامال ممالک شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بے شمار نعمتوں، بے پناہ قدرتی وسائل اور متنوع انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ عالم اسلام کی نمایندہ تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور نمایندہ تنظیم ہے، لیکن میں جب کئی روز سے فلسطین پر جاری صیہونی درندگی پر تمام وسائل، افواج اور قوت و طاقت کے باوجود عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام سے تو ہمارے بچپن کے سلطان راہی، ٹارزن اور سپرمین ہی بہتر تھے، جو اکیلے ہی اپنے دشمن کا مقابلہ کرلیتے تھے، لیکن یہاں پانچ درجن مسلم ممالک میں بستے ڈیڑھ ارب سے زاید مسلمان ایک چھوٹی سی صیہونی ریاست کے ہاتھوں اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کو چھٹکارا نہیں دلا سکتے۔

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ دنیا کے تمام مسلمان ایک انسانی جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح دنیا میں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچنے سے تمام عالم اسلام کو بے چین ہوجانا چاہیے، لیکن عالم اسلام کی بے حسی کو دیکھ کر یوم محسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام کسی کا دکھ محسوس کرنے والی حس سے ہی محروم ہوچکا ہے، جس کو اپنے مسلمان بھائیوں پر صیہونیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔