سیاسی سرگرمیاں عروج پر؛ کراچی آپریشن اعتراضات کی زد میں

عارف عزیز  منگل 5 اگست 2014
سیکیورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں ایم کیو ایم کے کارکنان کی گرفتاریوں اور چھاپوں کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ فوٹو : محمد عظیم / ایکسپریس

سیکیورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں ایم کیو ایم کے کارکنان کی گرفتاریوں اور چھاپوں کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ فوٹو : محمد عظیم / ایکسپریس

کراچی: فلسطین میں مسلمانوں پر اسرائیلی بربریت کے خلاف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور انسانی حقوق سے متعلق سرگرم مختلف تنظیموں کی جانب سے ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب متاثرینِ شمالی وزیرستان کی مشکلات کم کرنے کے لیے مختلف فلاحی تنظیموں کی سرگرمیاں بھی زوروں پر ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب میں مصروف فوجی جوانوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے بھی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ ملکی سیاست میں ان دنوں مسلم لیگ ن کے خلاف بیانات سے سیاسی ماحول گرم ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے آزادی مارچ کے ساتھ عوامی تحریک کے احتجاج کی تیاریاں عروج پر ہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ن لیگ کی قیادت نے مختلف جماعتوں کے قائدین اور بااثر شخصیات سے رابطے تیز کردیے ہیں۔

ن لیگ کو اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کے فیصلے پر مخالفین کی شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت انہیں احتجاج سے باز رکھنے کے لیے ان کے کارکنوں اور ہم دردوں کے خلاف غیرجمہوری طرز عمل اپنا رہی ہے، لیکن ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی قائدین اور کارکنان ضرور اسلام آباد پہنچیں گے۔

دوسری جانب کراچی آپریشن کی شفافیت سے متعلق متعدد یقین دہانیوں کے باوجود ایم کیو ایم کے تحفظات اور خدشات برقرار ہیں اور ان میں شدت آتی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم نے ابتدا سے ہی جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور یہ کہا تھاکہ پارٹی کا کوئی کارکن اگر کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے گرفتار کیا جائے اور کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔

تاہم آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے کارکنان کی سیکیورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر انہیں لاپتا کیے جانے اور ماورائے عدالت قتل کی شکایات کے ساتھ ایم کیو ایم کا احتجاج بھی جاری رہا اور گذشتہ دنوں کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کے گھر کے اطراف کا محاصرہ کرکے ایم کیو ایم کارکن راؤ شمشاد اور پڑوسیوں کو حراست میں لے لیا۔

کہا گیا ہے کہ رینجرز اہل کاروں نے ڈاکٹر فاروق ستار کے گھر کے باہر قائم سیکیورٹی کیمپ کو بھی اکھاڑ دیا۔ واقعے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 20 سے زائد موٹر سائیکلوں پر سوار رینجرز اہل کاروں نے علاقے کا محاصرہ کیا اور ان کے گھر پر کارروائی کی۔

انہوں نے سرچ وارنٹ بھی نہیں دکھایا اور رینجرز ان کا لائسنس یافتہ اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے مطالبہ کیا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے۔

دوسری جانب رینجرز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چھاپا فاروق ستار کے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر مارا گیا ہے۔ اس واقعے سے قبل کراچی میں فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کراچی کے عوام کو ان کا آئینی حق دیا جائے، اگر عوامی مقدمات کاحل نہ نکلا تو 14 اگست کو ہم بھی کوئی تاریخ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوم آزادی شایان شان طریقے سے منانا ہے تو عوام کے مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ اختلافات کا خاتمہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔

ایسا راستہ نکالنا چاہیے جس سے عوام کو جمہوری حصہ ملے۔ فاروق ستار نے کراچی کے باسیوں کے مسائل کا ذکر بھی کیا اور کہاکہ شہر میں 450 ملین گیلن پانی کی کمی ہے اور اس بات کا خدشہ ہے شہر میں ایک سال کے بعد پانی کے معاملے پر فسادات ہوں گے۔ انہوں نے ساحلِ سمندر پر سانحے کو مقامی حکومتوں کے عدم قیام سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اگر کراچی میں میئر ہوتا تو عوام اس کا گریبان پکڑ سکتے تھے، لیکن اس وقت حکومت اور ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مہم کا آغاز کرنے والی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں مقامی حکومتوں کا معاملہ اٹھائیں گے اور وزیراعلٰی سے ملاقات کر کے شہری علاقوں کے مسائل سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے مظاہرے یا دھرنا دینا پڑا تو وہ بھی کریں گے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اپنے گذشتہ دورۂ کراچی میں عوام کو مختلف ترقیاتی منصوبوں کی خوش خبری سنائی تھی۔ ان کی صدارت میں اجلاس میں  ’’گرین لائن ان کراچی‘‘ کے ساتھ کراچی سرکلر ریلوے، لیاری ایکسپریس وے سمیت کراچی تا لاہور موٹر وے اور دیگر میگا پروجیکٹس کی تکمیل سے متعلق امور زیرِ بحث لائے گئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر کے عوام پچھلے کئی برسوں سے بدامنی اور دیگر مسائل کی وجہ سے مصیبت میں گرفتار ہیں اور انہیں سہولیات کی فراہمی کے ساتھ شہر کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

ایسا ہی مطالبہ جماعتِ اسلامی کی جانب سے بھی عوامی چارٹر کے نام سے سامنے آیا تھا۔ جماعتِ اسلامی نے وفاقی حکومت سے کراچی کے لیے مختلف منصوبوں کی منظوری اور اس ضمن میں اربوں روپے جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے مطالبات میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، فراہمی و نکاسیِ آب کے بڑے منصوبوں پر کام کے ساتھ ٹرانسپورٹ اور اس سے متعلق دیگر منصوبوں پر عمل درآمد شامل تھا۔ کراچی کے عوام کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے ان مطالبات کی پُرزور حمایت کی جارہی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں حکومت اور متعلقہ ادارے بدامنی اور لاقانونیت کے خاتمے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ شہری رمضان اور عیدالفطر کے موقع پر بھی خوف کا شکار رہے۔ شہر بھر میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے چھاپے مارنے اور اس دوران گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ مختلف مقامات پر پولیس کی جانب سے ناکے لگا کر شہریوں سے پوچھ گچھ اور گاڑیوں کی چیکنگ بھی کی جارہی ہے۔ تاہم عوام کو شکایت ہے کہ اس دوران پولیس انہیں تنگ کرتی ہے اور مختلف بہانوں سے رشوت طلب کی جاتی ہے، جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔

پچھلے ہفتے بھی ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں متعدد قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے عوام کا مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے اور شہر میں ایمان دار اور فرض شناس افسران اور سیکیورٹی اہل کار تعینات کیے جائیں تاکہ کراچی میں قیام امن کا خواب پورا ہوسکے۔

اُدھر پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت اور کارکنان کی اسلام آباد آزادی مارچ سے متعلق تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے صوبائی ترجمان دوا خان صابر نے بتایا کہ پی ٹی آئی (کراچی ڈویژن) کے کارکنان اور ہم درد 14 اگست کے آزادی مارچ کے لیے نہایت جوش و جذبے سے تیاریاں کررہے ہیں۔ کراچی ڈویژن اور ضلعی عہدے داروں کی عوامی رابطہ مہم بھی جاری ہے، جس میں تحریک انصاف کے اراکین سندھ اسمبلی بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

صوبۂ سندھ اور خصوصاً کراچی سے پارٹی کارکنان کی آزادی مارچ کے لیے رجسٹریشن کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ شہر کے مختلف اضلاع میں عید ملن پارٹیوں اور ورکر کنونشن کے دوران اہلِ کراچی کو آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنان کی جانب سے پارٹی جھنڈے، پوسٹرز، اسٹیکرز اور دیگر تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ دوا خان صابر کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے ہزاروں کارکنان آزادی مارچ میں چیئرمین عمران خان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اگر وفاقی حکومت نے کراچی کے کارکنان کے لیے ٹرین فراہم نہیں کی تو ذاتی ٹرانسپورٹ کے ذریعے تمام حکومتی رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد پہنچیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔