مڈٹرم کا شوشہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 6 اگست 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

آئینی حکومت کو ایک سال ہوا، اچانک شور مچ گیا اور ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب کے نعرے کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے ۔ عمران خان نے 14اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کے فیصلے کوحتمی شکل دے دی ۔ الطاف حسین نے میاں نواز شریف کو استعفیٰ دینے کا مشورہ تک دے ڈالا۔ حکومت نے فوج کو آرٹیکل 245کے تحت اختیارات دے کر سیاسی بحران سے نجات کا راستہ تلاش کیا ۔کیا یہ صورتحال ملک کو سیاسی استحکام دے سکتی ہے؟ یہ سوال اگلے 10دن کا سب سے اہم سوال ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ عجیب سی ہے۔ ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کی جدوجہد اور عوام کے ووٹوں سے ملک قائم ہوا مگر عوام کے ووٹ کی حرمت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ فوج نے 34 برس حکومت کی ۔ انتخابات کے ذریعے جو حکومتیں قائم ہوئیں انھیں کبھی اپنی مدت پورا کرنے کا موقع نہیں ملا ۔آمرانہ حکومتوں کے اس طرز حکومت سے بنگالی عوام نے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اسلامی دنیا میں ایک نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔ جمہوری حکومتیں اپنی کارکردگی کا معیار بہت زیادہ بلند نہ کرسکیں مگر جب سیاستدانوں کو آزادی سے فیصلہ کرنے کا موقع ملا انھوں نے ملک کے مستقبل کو سنوارا۔

1971میں بھارت سے شکست اور 90ہزار فوجیوں کے بھارت میں قید ہونے ، مغربی پاکستان کے ہزاروں میل پر بھارت کے قبضے کے باوجود منتخب قومی اسمبلی نے 1973 کا ایک ایسا آئین تیارکیا جو تمام  رکاوٹوں کے باوجود ملک کو متحد کرنے کی واحد دستاویز بن گیا ۔ دو آمروں نے آئین کو معطل کیا اس میں من مانی ترامیم کیں جس سے فیڈریشن کے اتحاد پر ضرب لگائی ۔ 2010میں منتخب قومی اسمبلی کو فوجی آمروں کی جانب سے کی گئی آئینی ترامیم کو ختم کرنے اور صوبائی خود مختاری کے حقیقی تصور کو حقیقی شکل دینے کا موقع ملا ، خیبرپختونخوا کے عوام کا اپنے صوبے کے نام کا معاملہ حل ہوا۔

سندھ کا قومی خزانے سے جائز حق اور بلوچستان کے وسائل صوبے پر خرچ کرنے کے معاملات پر اتفاق رائے سے طے پائے، یوں 60کی دہائی میں عوامی لیگ کے 6نکات کو ملک دشمن قرار دے کر بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ ان نکات کے قریب کی خود مختاری چاروں صوبوں کو حاصل ہوئی اور وفاق کو استحکام ہوا ، انتخابی اصلاحات کے لیے آزاد الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کے طریقہ کار پر اتفاق رائے ہوا۔

اس ماحول میں 2013میں عام انتخابات منعقد ہوئے ، جسٹس(ر) فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت میں الیکشن کمیشن سے انتخابات کرانے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بلاوجہ ریٹرننگ افسروں کے سامنے تقاریر کرکے اپنے کردار پر دھبہ لگانے سے انتخابی عمل پر انگلی اٹھنے لگی ۔ ملک میں پہلی دفعہ ایک آزاد الیکشن کمیشن کے تصور کے تحت انتخابات ہوئے تھے اس بناء پر بہت سی خامیاں سامنے آئیں یوں محسوس ہوا کہ الیکشن کمیشن کے تمام اراکین اور چیف کمشنر کے تمام اختیارات مساوی ہونے کی بناء پر کمیشن کی کارکردگی معیار کے مطابق نہیں رہی۔

عملے اور ووٹروں کی تربیت نہ ہونے کی بناء پر مقناطیسی سیاہی سے ووٹرو ں کی شناخت کے معاملے پر شبہات پیدا ہوئے اس طرح پولنگ والے دن پولیس اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھے مگر تاریخ میں پہلی دفعہ برسراقتدارجماعت کو شکست ہوئی ۔

حزب اختلاف کی جماعت اقتدارمیں آئی ، دوصوبوں میں وفاق مخالف جماعتوں جیسی حکومتیں قائم ہوئیں ، صدارتی انتخابات منعقد ہوئے سابق منتخب صدر کو مکمل اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا، یوں پاکستان پہلی دفعہ اقتدار پر امن طور پر منتقل ہوا ، انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ انتخابات والے دن سے اٹھا ، تحریک انصاف نے سب سے پہلے کراچی میں انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنے دیے۔

لاہور میں یہ سلسلہ شروع ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان نے کراچی میں ہونے والی دھاندلی کے معاملے کو فراموش کردیا اور سارا زور پنجاب کے چار حلقوں پر لگا دیا۔ یہ ان کی حکمت عملی تھی تاکہ اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ عمران خان نے بہاولپور کے جلسے میں نیا موقف اختیار کیا، ان کا کہنا تھا کہ صرف4 حلقوں میں نہیں بلکہ پورے ملک انتخابات ہونے چاہیے ، اس کے ساتھ 14اگست کواسلام آباد میں دھرنے کا بھی اعلان کیا۔

2002میں عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے صدر منتخب کرانے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی ۔ بقول عمران خان وہ روایتی سیاستدانوں کے ساتھ اقتدار میں شریک نہیں ہوسکتے مگر اب چوہدری برادران اور شیخ رشید ان کے اتحادی بن گئے ۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی حمایت کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری اور اس کو امریکی کی جنگ قرار دینے والے عمران خان ایک دوسرے کے قریب آگئے ، اس دوران حکومت نے انتخابی نظام کو شفاف بنانے کے لیے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی کی تجویز بھی پیش کردی ہے ۔

ایک ماہ کی مشاورت کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی جس میں تحریک انصاف کے نمایندے بھی شامل ہیں ،مگر ڈاکٹر طاہر القادری نے یوم شہدا منانے کا اعلان کردیا ہے ، عمران خان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ یہ عناصر ان قوتوں کے آلہ کارہیں جو  جمہوری حکومت پر بالادستی چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں اسلام آباد میں دھرنے دینا ،حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا اورمڈ ٹرم انتخابات کا مقصد 1973کے آئین کی پامالی اور جمہوری نظام کے تسلسل کو ختم کرنے کے سواکچھ اور نہیں ہوگا اور پھر اس بات کی کون گارنٹی دے گا کہ آئینی اصلاحات کے بغیر مڈٹرم انتخابات شفاف ہوںگے اور تمام سیاسی جماعتیں ان کے نتائج کو تسلیم کریں گی۔

عمران خان گزشتہ ایک سال سے شمالی وزیر ستان میںفوجی آپریشن کی مخالفت کررہے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے رد عمل میں انتہا پسند ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے مگر گزشتہ ایک مہینے کی صورتحال عمران خان کے دعوے کی تردید کرتی نظر آتی ہے ، رمضان المبارک میں یوم علی ؓ کے موقعے پر موبائل سروس جاری رہنے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہونے سے ثابت ہوگیا کہ انتہا پسند بہت زیادہ مضبوط نہیں تھے ۔

اب عمران خان اس جمہوری عمل کو سبوتاژ کرکے کیا جاندار سیاسی نظام قائم کرسکیں گے یا طالع آزما قوتوں کے موثر کردارکی بناء پر یہ ممکن ہوسکے گا ۔ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 245کے تحت فوج بلا کر ایک غلطی کی، حکومت کو عوام کے لیے رعایتیں دے کر انھیں متحرک کرنا چاہیے ، ملک میں سیاسی نظام اس وقت مستحکم ہوسکتا ہے جب موجودہ حکومت 5سال مکمل کرے اور آیندہ شفاف انتخابات کے ذریعے اقتدار جیتنے والی پارٹی کو کو منتقل ہوجائے۔ یہی ترقی اور بقا کا راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔