کراچی سے غزہ تک

ایم جے گوہر  بدھ 6 اگست 2014
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

بلاشبہ عید الفطر مسلمانوں کے لیے خوشیوں، شادمانیوں اور مسرتوں کا دن ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ہر سال عید خوشی سے مناتے ہیں لیکن اس مرتبہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں عید کا دن دکھ کے ساتھ منایا گیا۔ ایک طرف عین عید پر کراچی کے ساحل سی ویو پر 40 سے زائد افراد کے ڈوب جانے کی خبر نے اہل پاکستان کی عید کی خوشیوں کو سوگ میں بدل دیا تو دوسری جانب اسرائیلی درندگی و بربریت کے باعث نہتے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام نے عید کی خوشیوں کو افسردہ کر دیا۔ دنیا بھر میں اسرائیلی سفاکیت پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

کراچی کے معروف تفریحی پوائنٹ سی ویو پر ہر سال عید و دیگر چھٹیوں کے موقعے پر عوام الناس کا غیر معمولی رش ہوتا ہے۔ ساحل پر پانی سے انجوائے کرنے کے علاوہ اور کوئی تفریح نہیں نتیجتاً بعض منچلے نوجوان نہانے کے شوق اور ایک دوسرے سے مقابلے کے جوش میں سمندری موجوں کی بے رحمی سے بے نیاز ہو کر اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی واپسی ممکن نہیں رہتی اور ان کے لواحقین اپنے پیاروں کے ڈوب جانے کا ماتم کرتے بے بسی و آہ و فغاں کی تصویر بن جاتے ہیں۔

اس مرتبہ عید  پر بھی ایک ایسا ہی دلخراش سانحہ ہوا جب سی ویو پر عید کی خوشیاں منانے والے 40 سے زائد افراد ڈوب گئے۔ ارباب اختیار ساحل سمندر کی تفریح اور اس کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اگر عید و دیگر خاص مواقعوں پر ساحل سمندر پر تفریح کے لیے آنے والے ہزاروں افراد کی حفاظت کے لیے قبل از وقت موثر انتظامات کر لیے جائیں تو اس قسم کے دلدوز حادثات سے بچا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ سب کچھ جاننے اور متعدد سانحات رونما ہونے کے باوجود انتظامیہ کی نااہلی و بے حسی کے باعث ساحل سمندر پر ایسے اندوہناک حوادث معمول بنتے جا رہے ہیں۔

کراچی کے عوام پہلے ہی خوف و ہراس اور آگ و خون کے زخم زخم ماحول میں سانسیں لے رہے ہیں اگر وہ ذہنی دباؤ کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساحل سمندر پر تفریح کے لیے جائیں تو واپسی پر اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر لائیں تو یہ انتہائی کربناک اور حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔ سانحہ سی ویو پر پولیس افسران کی معطلی، تفتیش و تحقیقات اپنی جگہ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کی پوری ساحلی پٹی پر ایسے فول پروف حفاظتی اقدامات کیے جائیں کہ تفریح کے لیے آنے والے خاندانوں کو گھر واپس جاتے ہوئے اپنے پیاروں کی لاشیں نہ اٹھانا پڑیں۔

ادھر اسرائیل کے درندہ صفت فوجیوں کا غزہ میں معصوم و نہتے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسرائیلی حملوں سے 1700 کے لگ بھگ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 300 معصوم بچے بھی شامل ہیں جب کہ 9 ہزار کے قریب فلسطینی زخمی ہو کر اسپتالوں میں زیر علاج ہیں حماس پر محض تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت کا بودا الزام لگا کر صیہونی افواج نے درندگی و سفاکی کا لبادہ اوڑھے بے گناہ و نہتے فلسطینیوں پر آگ و آہن برسانا شروع کر دیا جس کا کوئی جواز نہیں بلکہ اصل مقصد حماس کو سبق سکھانا ہے۔

اگرچہ دنیا کے بیشتر ممالک میں عوامی سطح پر فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن افسوس حکومتی سطح پر عالمی ضمیر پوری طرح بیدار نہیں ہوا۔ امریکا و دیگر عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ بے حسی کے باعث اسرائیل کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں بالخصوص عالم اسلام کی خاموشی و بے عملی نے اہل فلسطین کے دکھوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسرائیل نے اچانک فلسطین پر حملے شروع کر دیے ہوں آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں گزشتہ نصف صدی سے اسرائیل فلسطینیوں کو خون میں نہلا رہا ہے۔ وقفے وقفے سے صیہونی طاقت جسے مکمل امریکی آشیرباد حاصل ہے نہتے فلسطینیوں کے خلاف درندگی و بربریت کا کھیل شروع کر دیتی ہے۔ اسرائیل عرب سرزمین پر جبری قابض ہے اور اس کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ حاصل کر کے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کو ختم کر دیا جائے۔

اقوام متحدہ نے چار دہائیوں قبل عرب سرزمین پر یہودیوں کو حصے دار بنایا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کے دروازے کھل گئے وہ دن اور آج کا دن صیہونی طاقت نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلتی چلی آ رہی ہے۔ اس دوران اسرائیل و فلسطین کے درمیان جنگ بندی کے کئی معاہدے بھی ہوئے جن میں معاہدہ جنیوا، معاہدہ کیمپ ڈیوڈ اور معاہدہ واشنگٹن شامل ہیں لیکن کچھ وقت کی خاموشی کے بعد اسرائیل ہر معاہدے کی خلاف ورزی کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔

یہی وجہ ہے گزشتہ چار دہائیوں سے اہل فلسطین اسرائیل کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ اسرائیل کو اپنے ’’سرپرست اعلیٰ‘‘ امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اسی لیے دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بننے کے باوجود غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن برساتا چلا آ رہا ہے اور کوئی آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے نہ کہیں اقوام متحدہ کا کردار نظر آ رہا ہے اور نہ عالمی اور انسانی حقوق عالمی ٹھیکیداروں کا ضمیر جاگتا محسوس ہوتا ہے۔

غزہ کے نہتے مسلمانوں پر صیہونی حملوں کے خلاف سب سے زیادہ طاقتور آواز مسلمان ممالک کی ہونا چاہیے تھی لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کا ضمیر بھی سو رہا ہے یوں بھی اس کا کردار محض کانفرنسوں کے انعقاد، اعلامیوں کے اجرا اور اخباری بیانات سے آگے کبھی نہیں بڑھتا۔ تمام عرب ممالک کے حکمراں بے حس ہو چکے ہیں اور تیل کی بے پناہ دولت پر قدرت رکھنے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے غلام بنے امریکی ناراضگی کے خوف سے اسرائیلی بربریت کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

انھیں صیہونی فوجوں کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھانے سے کہیں زیادہ اپنے علاقائی اور قومی مفادات عزیز ہیں۔ کیا فلسطین، کیا لبنان، کیا عراق و کیا افغانستان ہر مسلم ملک کے خلاف امریکا و اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور مظالم سے مسلم حکمرانوں کی چشم پوشی، دانستہ مجرمانہ خاموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان تشدد کا شکار اور رسوا و بدنام بھی ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ 70 لاکھ کی آبادی کا حامل ملک اسرائیل دنیا کے ڈیڑھ ارب بالخصوص عرب لیگ ممالک کے 37 کروڑ مسلمانوں پر حاوی ہے۔

بیروت سے لے کر غزہ تک اور حزب اللہ سے لے کر حماس تک اسرائیل بھرپور طریقے سے اپنی دشمنی نکال رہا ہے۔ اس کے ناپاک عزائم کے آگے بند باندھنا اور اس کی وحشیانہ کارروائیوں کو لگام دینا انتہائی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کو فوری طور پر حرکت میں آنا اور جنگ بندی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جانا چاہیے۔ او آئی سی کو بھی غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے اور تنظیم کا اجلاس بلا کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مستقل اور عملی قدم اٹھائے جانے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔