’’پاکستان‘‘ کہاں کھو گیا؟

راؤ سیف الزماں  بدھ 6 اگست 2014
saifuzzaman1966@gmail.com

[email protected]

مجھے اس وقت بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایسے انسانوں کی باتیں جو دوسروں کو اذیت پہنچانے میں ایک ایسی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جن کا انھیں خود ادراک نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے کہ دوسروں کو اذیت پہنچا کر خوشی محسوس کرنا ایسا ہی غیر انسانی جذبہ ہے جسے کم از کم کوئی انسان شعوری طور پر تو ماننے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اسی غیر انسانی جذبے کے مریض ہیں۔ ہم ہی کیا اس درندگی کی زد میں ایسے ایسے بھی لوگ آئے ہیں جن کی (اگر پرستش جائز سمجھی جائے) آج پرستش ہوتی ہے۔ جو ہمارے بڑے بڑے سماجی اور انقلابی رہنما رہ چکے ہیں۔ جو ایک طوفان کی طرح اٹھے۔ اپنے ساتھ اپنے ملک والوں کو بھی لائے اور ہر جگہ اپنی شجاعت کے پرچم لہراتے تواریخ کے اوراق میں فاتح بن بیٹھے۔

یہ ضرور ہے کہ موجودہ زمانے کی بیشتر تہذیب بھی ان ہی لوگوں کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہے۔ جہاں یہ پہنچے وہاں کی زمین، وہاں کے آسمان ہی بدل گئے۔ اگرچہ وہ بہادر تھے مگر دل کی گہرائیوں سے درندہ صفت تھے یعنی دوسروں کو اذیت پہنچا کر خوشی حاصل کرنا یا انھیں برباد کرنے کا جذبہ جسے نفسیات میں ’’اذیت پسندی‘‘ کہتے ہیں۔ مجھے کل ہی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جس کا محرک ایک حادثہ ہے۔ یہ حادثہ میرے ایک عزیز دوست کی صورت میں مجسم بنا ہوا میرے سامنے موجود ہے۔

میرے دوست کی آنکھیں بہت سے رنگ بدل رہی تھیں۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی بہت ہی پیاری رفیقہ حیات سے جھگڑا کر کے آئے ہیں۔ اور جھگڑے کی وجہ محض اتنی سی بیان کی کہ دل چاہا بیگم کو ستاؤں۔ اتنا ستاؤں کہ اس کی آنکھیں بھر آئیں اور موٹے موٹے آنسو سیال نگینوں کی طرح اس کے گالوں پر بہنے لگیں۔ پھر فرمایا۔ کیا چمک ہوتی ہے ان آنسوؤں میں اور کیا پیار ہوتا ہے اس کی سسکیوں میں۔

میری استعجابیہ نظروں کے جواب میں کہنے لگے ۔ ’’اکثر دل چاہتا ہے کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور میں قہقہے لگا کر ہنسوں۔‘‘ لیکن یہ نہ سمجھو کہ میں اسے چاہتا نہیں۔ ارے نہیں بھائی! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں اس کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور شاید اس کے بغیر زندگی کو زندگی نہیں کہہ سکتا۔ مگر بیٹھے بیٹھے دل میں ایک خواہش سی پیدا ہو جاتی ہے کہ کاش وہ بھوک سے، پیاس سے تڑپتی ہوتی۔ کیوں جب کوئی تڑپتا ہے، روتا ہے، آہیں بھرتا ہے تو جانے کیوں مجھے خوشی سی محسوس ہوتی ہے اور ایک عجیب سا لطف آتا ہے۔

دراصل میرے دوست کا یہی ’’عجیب سا لطف‘‘ میرے کالم کا موضوع ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نفسیات میں ایسی حس کو ’’اذیت پسندی‘‘ کہتے ہیں۔ ان دنوں ہم بحیثیت قوم اسی جذبے کا شکار ہیں۔ آپ عصبیت “Sectism” کو کیا سمجھتے ہیں؟ یعنی چیزوں کا انتخاب جو صفت ادنیٰ ہے۔ اس بنیاد پر کرنا کہ وہ آپ کے علاقے میں بنی ہوں۔ آپ کے لوگوں نے بنائی ہوں۔ آپ کا خاندانی، علاقائی کلچر ان میں جھلکتا ہو، محدودیت کی ایک شکل ہے۔ لیکن انسانوں کا انتخاب جو ’’صفت اعلیٰ‘‘ ہے زبان و مکاں کی وجہ سے کرنا۔ ایک معاشرے کو مکمل تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔

آپ ذرا ایک نظر ملک کے چار صوبوں کی حکومتوں پر ڈالیے۔ تو فوراً محسوس کر لیں گے کہ مئی 2013 کے انتخاب میں آپ نے (مجھ سمیت) کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ہر قوم نے خواہ وہ ایک گلی تک محدود ہو یا صوبے تک اپنا نمایندہ اسے چنا جو اس کی زبان بولتا تھا۔ جو اس کے ہر جائز و ناجائز کام بڑھ چڑھ کر کر سکتا تھا۔ خواہ چنیدہ نمایندہ، کرپٹ تھا، بے ایمان تھا کچھ بھی تھا لیکن اسے چن لیا گیا کیونکہ وہ اپنا تھا۔ نتیجہ کار جو لوگ برسر اقتدار آئے اور جو حکومتیں معرض وجود میں آئیں ان کا حال پچھلے ڈیڑھ سال میں ہمارے سامنے ہے۔ مثلاً پنجاب بڑا صوبہ ہے لہٰذا مرکزی حکومت بھی اس کے حصے میں آئی۔

اب وہاں دھڑا دھڑ روڈ بن رہے ہیں۔ میٹرو بسز کا افتتاح ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ اسپتال بھی Central A.C کیے جا رہے ہیں۔ انڈسٹریز کا جال پھیلایا جا رہا ہے۔ بلوچوں نے اپنی حکومت تشکیل دی اور حکومت وجود میں آتے ہی جھگڑے ختم، احساس محرومی ختم۔ Resources پر کنٹرول۔ سندھ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اور وہاں پر حکومت نے مرکز سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اپنے علاقے میں وقت گزاریں ادھر تشریف کم لایا کریں۔ نیز ہمیں کسی میٹرو بس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ KPK میں خان اعظم خانان اعظم ہیں۔ عالمگیر رہنما ہیں۔ پھر فرنگیوں کے داماد بھی رہے ہیں۔ لہٰذا لب و لہجہ بادشاہوں والا ہے۔ لیکن ’’عصبیت‘‘ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

ان چاروں حکومتوں میں اور چاروں صوبوں میں رہنے والے لوگوں میں بات بالکل صاف ہے کہ اپنا الو سیدھا کر لیا جائے۔ جسے جہاں سے جس بنیاد پر ووٹ ملے وہ اسی بنیاد کو مضبوط کر رہا ہے۔ پاکستان البتہ اس کھینچا تانی میں کہیں کھو گیا ہے اور اس کا مرکز کہاں ہے۔ ’’اسلام آباد‘‘۔ آپ مجھے بتائیے اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اسلام آباد کو Capital مان لیا جائے؟ یا ہم مانتے ہیں۔ یہ چاروں صوبے جن میں مختلف قومیتیں رہتی ہیں اور ان میں موجود حکومتیں مرکزی حکومت کا احترام کرتی ہیں؟ جو وفاق ہے جو ایسا جہاز ہے جس میں آپ کی چاروں کشتیاں رکھی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اگر کوئی میرے نقطہ نظر سے اختلاف کرتا ہے تو وہ قرآن کریم میں ’’سورہ منافقون‘‘ کا ترجمہ ایک مرتبہ ضرور پڑھے تا کہ اسے خود اپنا ادراک ہو۔

ہم محض نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور دینی فرائض ہمارے لیے اب Formalities سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے یعنی ماہ رمضان آ گیا تو روزے رکھ لیے۔ محرم آیا تو سوگ منا لیا۔ بقر عید کے دن قربانی کا گوشت اڑا لیا۔ لیکن اسلام کی روح تو اس کی تعلیمات پر عمل میں ہے۔ عمل کرنے کے اوقات میں ہم کھلم کھلا سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون، مہاجر، سرائیکی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سید، صدیقی، آرائیں، گجر، جاٹ، راجپوت، قریشی، مروت اور نجانے کیا کیا ہوتے ہیں۔ پھر امیر، بہت امیر، درمیانہ امیر، مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس، غریب، بہت غریب، لکیر سے نیچے کے غریب ہوتے ہیں اور ان ہی درجات کو لے کر ایک دوسرے کو چنتے ہیں، ملتے ہیں، رشتے داریاں کرتے ہیں حتیٰ کہ رہائش تک ان باتوں کو مدنظر رکھ کر اختیار کرتے ہیں۔

اب ذرا سوچیے کہ سرکار دو عالم آپؐ کا آخری خطبہ جو آپ نے عرفات کے میدان میں دیا وہ کہاں گیا۔ کیا ہم نے اس میں سے کسی ایک نقطے پر عمل کیا؟ یا صریحاً اس کی خلاف ورزی کی! پھر عرف عام ہمارا یہ نعرہ ہے کہ ہم سرکارؐ کی کھاتے ہیں۔

آج ہمارا ملک اس زبوں حالی کا شکار کیوں ہے؟ نت نئی آفتوں میں کیوں گھرا ہوا ہے؟ آخر یہ ترقی کیوں نہیں کرتا؟ آخر ہماری نئی نسل اخلاقی گراوٹ کی جانب کیوں دوڑی جا رہی ہے؟ ہمارے رزق میں، اولاد میں، مال میں، صحت میں برکت کیوں نہیں ہوتی۔

کیونکہ اب ہمارا دین عصبیت ہے۔ صوبائیت ہے، زبان ہے۔ خدا تو ہماری زبان سے دل میں اترا ہی نہیں۔ ہاں مسلمان ہیں لیکن صرف اس لیے کہ کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہو گئے ۔ واقف اسلام ہیں کیونکہ بڑوں سے کچھ قصائص سن لیے ہیں۔ لیکن جب دوران الیکشن امیدواران سے آر اوز R.Oz نے سورہ اخلاص سننا چاہی تو نہ سنا سکے۔ سورہ فاتحہ انھیں یاد نہیں تھی۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ وہ منتخب ہو گئے۔ موجودہ حکومت کے وزیر، مشیر ہیں۔ کیونکہ ہم نے انھیں منتخب کیا۔ کیوں منتخب کیا۔ وجہ میں بیان کر چکا ہوں۔

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔