احتجاجی سیاست

نصرت جاوید  جمعرات 7 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عمران خان اس حوالے سے بھی ایک خوش نصیب سیاستدان ہیں کہ جب انھوں نے کرکٹ سے سیاست کی طرف رجوع کیا تو ہماری ریاست نے احتجاجی تحریکوں کو ذرا صبر سے برداشت کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود 12اکتوبر 1999 بھی ہوا مگر جنرل مشرف نے خود کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کہلوانے سے گریز کیا۔ فوجی عدالتیں قائم کرنے کے بجائے پہلے سے موجود عدالتی نظام کو PCOکے تحت ہی سہی برقرار رکھا اور اپنے ٹیک اوور کو سپریم کورٹ کے ذریعہ جائز اور منصفانہ قرار دلوایا۔

احتساب کے نام پر چند سیاست دانوں کو ریاستی جبر کا نشانہ ضرور بنایا مگر ساری توجہ اس بات پر مرکوز رکھی کہ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو ملک اور سیاسی عمل سے باہر رکھا جائے۔ آصف علی زرداری کو نواز شریف کی حکومت نے جیل میں ڈالا تھا۔ انھیں مشرف کے دور میں رہائی نصیب ہونے میں کئی برس لگے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے کم سن بچوں کی سرپرستی کی خاطر وطن سے دور رہیں۔ میڈیا بھی زیادہ تر آزاد رہا اور پھر 24/7کی بہار بھی آگئی۔

عمران خان اور خاص طور پر ان کے نوجوان پرستاروں کو جبر کی اس شدت کا ہرگز اندازہ ہی نہیں جو 1990 کی دہائی سے قبل اس ملک پر مسلط رہی۔ جنرل مشرف کا پورا دور تو درحقیقت محض جبر کے بجائے ایجنسیوں کے ذریعے وفاداروں کی ایک کھیپ کو نوازنے میں مصروف رہا۔ موقعہ پرست سیاستدانوں کی ایک بے پناہ تعداد نے اس سے بھرپور فوائد اٹھایا۔ ضلعی حکومتوں میں اپنے اور اپنے دھڑے کے لیے اقتدار واختیار کے حصے لیے اور بعدازاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنی اپنی سیاست کرتے رہے۔

مل بانٹ کر موج اُڑائو والا یہ ماحول 2007 تک جاری رہا مگر اس سال کے مارچ میں افتخار چوہدری والا ’’انکار‘‘ ہوگیا۔ پھر اکبر بگٹی کی ہلاکت اور بالآخر لال مسجد۔ اکبر بگٹی اور لال مسجد سے کہیں زیادہ جاندار مگر ’’چیف کے بے شمار جانثاروں‘‘ کی چلائی تحریک رہی۔ اس تحریک کو اِکاّ دُکاّ پرتشدد واقعات کے باوجود ریاست نے کافی صبر سے برداشت کیا۔ اس تحریک کی شدت کے ایام ہی میں عمران خان میری آنکھوں کے سامنے پہلی بار گرفتار ہوئے۔

ہمارے ایک بزرگ اور مہربان صحافی ہیں افضل خان صاحب۔ ہم سب انھیں احترام سے ’’بھاء جی‘‘ کہتے ہیں۔ موصوف پریشان کن حد تک مہمان نواز ہیں اور اکثر اس کوشش میں مصروف کہ اپنے گھر پر کسی معروف سیاست دان کو کھانے پر بلا کر اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ ملاقات کا بندوبست کریں۔ بھاء جی کئی برسوں تک ذوالفقار علی بھٹو کے دیوانے رہے مگر 2007سے ان کی ساری محبت کا رُخ عمران خان کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔ بہرحال ایک شام انھوں نے اپنے فلیٹ پر کپتان سے ہماری ملاقات کا اہتمام کیا۔

اس شام کے بعد آنے والی صبح کو افتخار چوہدری کی حمایت میں ایک جلوس اسلام آباد سے برآمد ہونا تھا۔ عمران خان نے بھی اس میں شریک ہونا تھا۔ کافی دیر تک گپ شپ کے بعد لیکن جب عمران خان میرے سمیت چند صحافیوں کے ساتھ لفٹ سے باہر آئے تو پولیس کے چند افراد کپتان کے منتظر پائے گئے۔ ذرا خجالت اور شرمندگی سے ان کے افسر نے آنکھیں نیچی کیے عمران خان کو اطلاع دی کہ وہ انھیں گرفتار کرکے بنی گالہ لے جاکر نظر بند کردیں گے۔ میں آج بھی عمران خان کے چہرے پر پھیلی اس معصوم حیرت کو فراموش نہیں کرپایا جس کے ذریعے وہ جاننا یہ چاہ رہے تھے کہ پولیس کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ وہ ’’بھاء جی‘‘ کے گھر ایک دعوت پر آئے ہوئے ہیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ 7برس گزر جانے کے بعد عمران خان کو مجھ سے کہیں زیادہ اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کی ریاست سرکردہ سیاست دانوں پر کڑی نگاہ رکھتی ہے اور اسے غچہ دینے کا ہنر بڑی محنت سے دریافت کرنا ہوتا ہے۔ عمران خان کی اپنی جماعت میں لیکن بے پناہ اکثریت ان جذبہ اور جنون والوں کی ہے جنھیں اس حقیقت کا ابھی تک خاطر خواہ اندازہ نہیں۔ یہ نیک طینت اور سادہ لوح کارکن ریاست کے ان ہتھکنڈوں سے ہرگز واقف نہیں جن کے ذریعے کسی احتجاجی تحریک کو بے اثر بنایا جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نمائوں میں اس حوالے سے سب سے زیادہ تجربہ کار بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ’’عادی مجرم‘‘ میرے دوست جاوید ہاشمی عرف ’’ایک بہادر آدمی‘‘ ہیں۔ دوسری شخصیت جو میں اس حوالے سے اہم سمجھتا ہوں وہ شفقت محمود ہیں۔ میرے یہ دوست DMGسروس کے ہونہار رکن ہوا کرتے تھے۔ اپنی اس حیثیت میں انھوں نے جلسے جلوسوں سے ڈیل کرنے کا ڈھنگ بھی سیکھ رکھا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی فراغت کے بعد شفقت صاحب نے سرکاری نوکری چھوڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی معاونت اورMedia Managementشروع کردی۔ اپنی اس حیثیت میں انھوں نے احتجاجی سیاست کو “Other End”سے بھی خوب سیکھ لیا۔

ان دو صاحبان کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ عمران خان نے 14اگست کے روز اسلام آباد پہنچ کر نواز حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس دھڑن تختے کی تیاری کرتے ہوئے وہ جاوید ہاشمی اور شفقت محمود سے مسلسل مشورے طلب کررہے ہوں گے۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ایسا ہورہا ہے یا نہیں۔ مگر گزشتہ کچھ دنوں سے تحریک انصاف کے چند جوشیلے کارکنوں سے بات چیت کے بعد شبہ سا ہورہا ہے کہ شاید ان جیسے تجربہ کاروں سے کوئی زیادہ مشاورت نہیں کی جا رہی۔

تحریک انصاف کا ہر متحرک کارکن اپنے تئیں مجھے تو طے کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ 14اگست سے پہلے اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان میں سے اکثر اب ٹی وی پر آکر دعوے کررہے ہیں کہ پولیس انھیں ڈرا دھمکا رہی ہے۔ کیسے اور کس طرح؟ یہ سوال نہ صحافی پوچھتے ہیں اور نہ ہی کارکن کوئی تفصیلی وضاحت دیتے ہیں۔ گزشتہ اتوار تو حد ہی ہوگئی۔ میں دنیا سے کٹا اپنے قفس کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا کہ ایک متحرک رپورٹر گزشتہ عید کی مبارک دینے میرے ہاں تشریف لائے۔

میں ان کی خاطر مدارت میں مصروف تھا کہ اچانک ان کے فون پر پیغامات آنا شروع ہوگئے کہ تحریک انصاف کی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ کو شام 5بجے ان کے گھر میں نظر بند کردیا جائے گا۔ محض ذاتی تجربات کی بناء پر میں نے حکومت اور انتظامیہ کے کسی فرد سے بات کیے بغیر دعویٰ کردیا کہ نواز حکومت اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ 14اگست سے تقریباً دو ہفتے قبل ڈاکٹر مزاری صاحبہ کی سطح کی رہ نما کو ان کے گھر نظر بند کردے۔ شیریں مزاری لیکن میری پرانی دوست بھی ہیں۔ تحریک انصاف میں چلے جانے کے بعد اگرچہ میرے ’’غیر انقلابی‘‘ رویے سے نالاں بہت رہتی ہیں مگر دوست تو پھر بھی ہیں۔ میں نے انتہائی خلوص سے اپنے رپورٹر دوست سے درخواست کی کہ وہ تفصیلات کا پتہ چلائے۔

انھوں نے بالآخر مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو مبینہ طورپر اسلام آباد کی اسپیشل برانچ سے مطلع کیا گیا ہے کہ وہ 5بجے تک اپنے گھر سے تمام افراد کو کہیں اور منتقل کردیں اس لیے کہ انھیں اس وقت سے نظر بند کردیا جائے گا۔ یقین مانیں کہ مجھے یہ بات ڈاکٹر صاحبہ کے بہی خواہوں کو سمجھانے میں بہت دیر لگی کہ حکومت آپ کو جب آپ کے گھر پر نظر بند کرتی ہے تو اس کے SOPsکیا ہوتے ہیں۔ ان سب میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے خاندان والے اپنے گھر کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ مجھے ڈاکٹر صاحبہ سے ذاتی عقیدت کی وجہ سے بالآخر یہ جان کر دلی مسرت ہوئی کہ ان کی نظر بندی کے امکان کے بارے میں پھیلائی گئی کہانی محض ایک مذاق تھی یا انھیں پریشان اور مشتعل کرنے کا روایتی انتظامی ہتھکنڈہ۔

ایسی بہت سی کہانیاں ہیں اور14اگست تک بنتی رہیں گی۔ فی الوقت عرض مجھے صرف یہ کرنا ہے کہ احتجاجی سیاست کی اپنی مخصوص  Dynamicsہوتی ہیں۔ عمران خان صاحب کو اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے اپنے جذبہ جنون والے متوالوں کو اس کی بابت 14اگست سے پہلے کوئی Short Courseکروا دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔