رنج لیڈر کو بہت ہے مگر....؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 7 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی آپ اس تجربے سے گزرے ہیں کہ اپنے گھر میں بھی آگ لگی ہو، لیکن اسے نظر انداز کرکے آس پاس کے گھروں میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے پانی کی بالٹیاں لے کر نکل پڑے اور ادھر اپنا گھر بار اور اس کے مکین جل کر راکھ ہوگئے؟ دوسروں کی مدد کرنا ہی انسانیت ہے، ایسا ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔

انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات کا درجہ اسی لیے دیا ہے کہ وہ مصیبت میں لوگوں کے کام آئے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی توکہا گیا ہے کہ ’’اول خویش، بعد از درویش‘‘ یعنی صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ میں بھی پہلے اپنے عزیز و اقارب کی طرف دیکھیے، پھر پڑوسی اور اہل محلہ کی باری آتی ہے اور آخر میں دیگر ضرورت مند۔ لیکن پاکستانی قوم کو جن لوگوں نے اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے ہائی جیک کیا ہوا ہے، ان میں وہ جلوس بردار سر فہرست ہیں جو صرف خود کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زندہ رکھنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔

آئے دن کی ریلیاں جلسے جلوسوں اور دھرنوں نے بڑے شہروں کے رہنے والوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے پرچم لے کر نعرے مارتے ہوئے ایک ٹڈی دل کی طرح نہ جانے کہاں سے لوگ نکل آتے ہیں۔ ان میں سے کتنے پارٹی کارکن ہیں اور کتنے ’’دیہاڑی‘‘ پہ لائے گئے ہیں۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔سیاست دان، علمائے کرام اور ان کی ذیلی طلبہ تنظیمیں بھی پورے جوش و خروش سے میدان میں اتر آتی ہیں۔

جنھیں دیکھ کر وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ اور ’’ایشیا سبز ہے‘‘ کے نعرے زمانہ طالب علمی میں سناکرتے تھے اور جوشیلے کارکنوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر متاثر بھی ہوتے تھے، لیکن افسوس کہ ان جذباتی نعروں نے پاکستان کو کچھ نہ دیا۔ آج جدید اور چلتا ہوا نعرہ ’’انقلاب‘‘ کا ہے۔ کہاں کا انقلاب اور کیسا انقلاب؟ جب زبانوں پہ تالے ڈال دیے جائیں، قلم خرید لیے جائیں، جو بک نہ سکیں انھیں توڑ دیا جائے۔

جہاں نفسا نفسی کا یہ عالم ہو کہ کہیں آدھی سے زیادہ قوم غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہو۔ وہاں کیسے انقلاب آسکتا ہے۔ خواہ سیاسی و عسکری جماعتیں ہوں یا مذہبی رنگ میں ڈوبے وہ ڈنڈا بردار جو ہر جگہ ہر چینل پہ اور ہر سڑک پہ ’’امریکا مردہ باد‘‘ کے بینر اور نعرے لگاتے ہیں۔ وہی بڑی تعداد میں امریکا کی مختلف ریاستوں میں آباد ہیں۔ اسی طرح حکومتیں بدلنے کے بعد ان ہی نازک جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر ہمت والے جیالے سیاسی پناہ کا نعرہ لگاکر اپنا مستقبل محفوظ کرلیتے ہیں اور پھر اس مصرعے کی تفسیر بن جاتے ہیں کہ:

ہر روز، روز عید ہے ہر شب، شب برأت

کیا ایسی حالت میں کوئی بھی صاحب فہم انقلاب پہ یقین کرسکتا ہے۔ ان لیڈروں کو اس بدنصیب ملک پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نظر کیوں نہیں آتا؟ پنجاب کے شہر میں ایک بچے کے بازو ظالم زمیندار نے کاٹ دیے۔ مجھ سمیت بہت سے حساس لوگ ٹی وی پر وہ دردناک منظر دیکھنے کی تاب بھی نہ لاسکے۔ کیا یہ ایسا ظلم نہ تھا جس پر اس زمیندار کے خلاف کوئی جماعت احتجاجی ریلی نکالتی؟ بھلا کیوں نکالتی، وہ معذور بچہ یا اس کا غریب باپ انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تھے۔

کیا اس مجرم زمیندار کے ساتھ بھی وہی سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا جو اس نے بچے کے ساتھ کیا؟ وہ صاحب ایمان شخصیات کہاں ہیں جو آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک کاٹنے پہ یقین رکھتی ہیں؟ ہمیں فلسطینی نظر آجاتے ہیں، لیکن لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ ہونے والی درندگی نظر نہیں آتی! اس کے مجرم کی گرفتاری کے لیے کوئی ریلی نہیں نکالی جاتی؟ کیوں؟ بلوچستان میں جیتی جاگتی عورتوں کو زندہ قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تب بھی کہیں سے احتجاج بلند نہیں ہوتا کہ سرداروں کی ہر بات آمنا و صدقنا کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی عورتوں کو زندہ دفن کرنا بلوچی روایت ہے۔ کوئی اس کے خلاف نہیں بولتا کہ وہاں سے ووٹ جو لینے ہوتے ہیں۔

جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے اور اسرائیل کے وجود کا مسئلہ ہے تو کوئی یہ بتائے کہ اسرائیل راتوں رات تو وجود میں نہیں آگیا؟ چاروں طرف عرب ممالک اور بیچ میں بتیس دانتوں کے درمیان زبان کی طرح اسرائیل؟ کیا عرب شیوخ اور دیگر حکمرانوں نے کبھی امریکا کی یا اقوام متحدہ کی توجہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی طاقت اور زیادتیوں کی طرف دلانے کی زحمت گوارا کی؟ اور کیا یہ مسئلہ ایک دن کا پیدا کردہ ہے؟ لیکن افسوس کہ ہمیں حقائق کو چھپانے اور جھوٹ کو بڑھاوا دینے کی عادت جو پڑچکی ہے۔

وہ دن ہوا ہوئے جب دروغ دیوزاد کی آنکھیں سچ کی روشنی کے سامنے چندھیا جاتی تھیں اور اس کا سیاہ علم سچ کے سفید پرچم کے سامنے ٹھہر نہ سکتا تھا۔ لیکن اب معاملہ برعکس ہے۔ ہم جھوٹے آنسو بہانے اور منافقت کے عادی ہوچکے ہیں۔ کیونکہ مارکیٹ میں ان ہی چیزوں کی کھپت ہے۔ اسی لیے دوسرے ممالک کے عوام پر ہونے والے ظلم تو دکھائی دیتے ہیں، لیکن اپنے وطن میں ہونے والی کوئی زیادتی کسی سیاست دان کو دکھائی نہیں دیتی۔

آخر کیوں تیزاب سے جھلسی ہوئی عورتوں کے لیے کوئی جماعت آواز نہیں اٹھاتی۔ ننھی منھی معصوم بچیاں ہوس کا شکار ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان درندوں کو پھانسی تو کیا سزا بھی نہیں دی جاتی، بلکہ انھیں پکڑا بھی نہیں جاتا۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں گھریلو ملازماؤں اور ملازموں پر بے پناہ تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ بعض اس تشدد سے جان سے بھی گزر گئیں۔ لیکن چونکہ مجرم پاور فل تھے اس لیے حکومت بھی ان کے خلاف کچھ نہ کرسکی۔خواہ کوئی بھی پارٹی ہو سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔

طاقت حاصل کرو، بیرون ملک اثاثے بناؤ، محلات بناؤ، شوگر ملیں لگا، بینک اور سی این جی اسٹیشن بناؤ۔ اور ہر وہ شے حاصل کرو جو طاقت، تعلقات اور سیاسی رابطوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کو بھی وہی دکھانے کوکہو جو ان طاقت ور لوگوں کو سوٹ کرتا ہے۔ پھر بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنی سی بھرپور کوششوں کے ذریعے فرض کفایہ ادا کر رہا ہے۔ خواہ بازو کٹ جانے والا بچہ ہو، زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم کلیاں ہوں، زندہ دفن ہونے والی لڑکیاں ہوں، یا کرپشن کے ذریعے مال بنانے والے حکمران۔ ان سب کے کالے کرتوت میڈیا ہی بے نقاب کرتا ہے۔

بعض اوقات اسے اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی جھوٹ کے سیاہ بادلوں کے باوجود سچ کے سورج کی کرنیں کہیں نہ کہیں سے اپنے وجود کا احساس دلا ہی جاتی ہیں۔ لیکن ڈر لگتا ہے اس وقت سے جب سچ کی کرنیں بالکل ہی غائب نہ ہوجائیں۔ کیونکہ جھوٹ کی سیاہی ہر صفحہ زندگی پہ بکھری ہے۔ تازہ ہوا میں سانس لینا دوبھر ہے اور کوئی نہیں جو جھوٹ ، منافقت اور ظلم کے خلاف احتجاج کرے۔ ریلیاں نکالے اور حکمرانوں کا شہر بند کردے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔