حکومت اور کاروبار

آفتاب احمد خانزادہ  جمعرات 7 اگست 2014

جلال الدین ملک شاہ سلجوقی نے عمر خیام کو خط لکھا ’’میرے پائوں میں موچ آگئی ہے اور میں کوئی کام نہیں کرسکتا امور سلطنت رک گئے ہیں برائے مہربانی کسی اچھے طبیب کا پتہ  بتلائیے‘‘ عمر خیام نے با دشاہ کو خط کے جواب میں لکھا ’’ظل الہی آپ امور سلطنت سے نمٹنے کے لیے اپنا پائوں نہیں عقل استعمال کیجیے‘‘ اگر کوئی اس بات پر اڑا رہے یا تلا رہے کہ وہ مسائل کو ویژن، عقل، دانش کے بجائے زور زبردستی، دھونس، تقریروں، بڑھکوں، دعوئوں سے صحیح کر دے گا تو پھر اس کے لیے دعائے خیر بھی خالی جائے گی۔

عقل کے بغیر معاملات حل کر نا ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں کالی بلی کو پکڑنا۔ با دشاہوں کے دور میں بھی بادشاہ مشورے کرتے تھے غور و فکر کرتے تھے عقل کو استعمال کیا جاتا تھا چنگیز خان، ہلاکوخان، قبائلی خان بھی پلاننگ کرتے تھے مشورے کرتے تھے فہم و فراست سے کام لیتے تھے۔ ہٹلر، مسولینی بھی پھو نک پھونک کر قدم اٹھا تے تھے، ہر قدم اٹھانے سے پہلے بیس بار سو چتے تھے۔ دنیا کے سب آمروں کے اقدامات آمرانہ تھے لیکن ذہنی رویے جمہوری تھے۔

ادھر ہمارے حکمرانوں کے اقدامات بھی آمرانہ ہیں اور ذہنی رویے بھی آمرانہ ہیں۔ اسی لیے حکومت مخالف جماعتوں کو بڑی بھا گ دوڑ نہیں کرنا پڑی ان کا سارا کا سارا کام حکومت نے خود ہی کر دیا اصل میں حکومت مخالف جماعتیں حکمرانوں کی تمام کمزوریوں، خامیوں، نفسیات اور ذہنی رویے سے اچھی طرح آگا ہ تھیں بس انھوں نے اپنے کارڈز انتہائی خوبصورتی اور باریکی کے ساتھ اس طرح سے کھیلے کہ حکومت ان کا پیچھا کرتی کرتی ایسی بند گلی میں جا کر پھنس گئی کہ جس سے باہر نکلنے کے لیے انھیں کوئی بھی پتلی گلی نہیں مل پا رہی ہے۔ عقل مند لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی خاص وجہ سے مچھلیوں کو کیچو ے پسند ہیں اس لیے وہ کانٹے میں اسٹابری نہیں لگاتے بلکہ مچھلیوں کے آگے کیچوے پھینکتے ہیں اور کہتے ہیں شوق فرمائیے۔

لائڈ جارج سے جب کسی نے پوچھا کہ ’’حیرانی کی بات ہے کہ جب آپ کے ساتھی دوران جنگ کے تمام رہنما ولسن، آرلینڈ اور کلے مینیسو اپنے عہدوں سے الگ کیے جا چکے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں سے اتر چکے ہیں تو پھر آپ کس طرح ابھی تک برسر اقتدار ہیں انھوں نے جواب دیا کہ ان کے برسراقتدار رہنے کی اگر کوئی وجہ ہو سکتی ہے تو صرف یہ ہے کہ انھیںکانٹے میں مچھلیوں کی من بھاتی چیز لگا نے کا گر یاد ہے‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اپنا مقصد عزیز ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھیے کہ کسی دوسرے شخص کو آپ کی غرض سے کوئی واسطہ نہیں دوسرے لوگ بھی آپ جیسے ہیں انھیںبھی اپنا مقصد عزیز ہے۔

سیاست اور زندگی میں کبھی بھی غلطی کی گنجا ئش نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ اپنی پہلی غلطی کو درست کرنے کے لیے دوسر ی غلطی کرتے ہیں پھر تیسری اور پھر لگاتار آپ سے غلطیاں ہوتی ہی چلی جاتی ہیں۔ خدا نے ہر انسان کو صلاحتیں عطا کی ہیں لیکن یاد رکھیئے ہر کام کرنے کے لیے نہیں بلکہ مخصوص کا م کے لیے اسے مخصو ص صلاحیتیں مہیا ہیں۔ اسی لیے ہر کام کو سر انجام دینے کے اپنے گر، اپنے طریقے اور اپنی باریکیاں ہوتی ہیں ہر شخص ہر کام خو بصورتی سے نہیں کرسکتا جس طرح ایک بزنس مین میں یہ خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنے بزنس کو کامیابی کے ساتھ ترقی دیتا چلا جائے لیکن اگر اسی بزنس مین کو حکومت چلانے کا موقع دے دیا جائے تو ظاہر ہے وہ بزنس مین حکومت کو کاروبار کی ہی طرح چلائے گا کیونکہ اس میں صرف صلاحیت ہی بزنس چلانے کی موجود ہے۔

تو پھر نتیجہ جو نکلے گا وہ سب کو معلوم ہے  ایک روز ایمر سن اور ان کے بیٹے نے اپنی گائے کے بچھڑے کو باڑے کے اندر لانے کی کوشش کی ایمرسن بچھڑے کو دھکیلنے اور ان کے صاحبزادے اسے آگے سے پکڑ کر کھینچنے لگے لیکن بچھڑا بھی وہی کچھ کر نے لگا جو وہ کر رہے تھے وہ بھی ان کو گھسیٹنے اور دھکیلنے لگا بچھڑے نے اپنی ٹانگیں اکڑا لیں اور چراگا ہ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

ایمرسن کی نو کرانی آئرلینڈ کی تھی اس نے انھیںمصیبت میں گرفتار دیکھ لیا وہ مضمون اور کتابیں تو نہ لکھ سکتی تھی لیکن اس موقع پر اس نے ایمرسن کے مقابلے میں زیادہ عقل مندی کا ثبوت دیا اس نے سوچا کہ بچھڑا کیا چاہتا ہے اس نے اپنی انگلی بچھڑے کے منہ میں ڈال دی بچھڑے نے انگلی کو چوسنا شروع کر دیا اور اس طرح وہ اسے باڑے کے اندر لے آئی۔ یاد رہے تجر بہ سب سے بڑا استاد ہو تاہے جو کام ایمر سن جیسا فلسفی، دانشور نہ کر پا رہا تھا وہ کام اس کی نوکرانی نے باآسانی کر دکھایا۔

اس لیے کہ جو جس کا کام ہے وہ ہی بہتر کر سکتا ہے ہر شخص ہر کام بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا  اگر کر نے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام ایمرسن سے مختلف نہیں ہو گا۔ انسانی فطرت عملاً  کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس شخص کو ہم درست راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں یا اس کی خدمت کر نا چاہتے ہیں وہ اپنے آپ کو حق بجا نب ثابت کر نے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور یہ ہی کچھ کہے گا کہ ’’میری سمجھ میں نہیں آیا کہ جو کچھ میں نے کیا ہے میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی کر سکتا تھا‘‘۔

اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو تسلیم کر لینا سب سے بڑی عقل مندی ہے لہذا ہمارے حکمرانوں کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ انھوں نے پچھلے 365 دنوں میں حکمرانی کرتے وقت عقل و دانش سے کام نہیں لیا اور حکومت کو کاروبار کی طرح چلانے کی کوشش کی جس میں انھوں نے اپنے فائدے اور نفع کو تو مد نظر رکھا لیکن ملک کے عوام ان کی ترجیحات میں شامل نہ تھے ان کے طرز حکمرانی کی وجہ سے ملک اور قوم کو درپیش کوئی ایک مسئلہ حل نہیں ہو سکا بلکہ اور نئے مسائل پیدا ہوگئے۔

یاد رکھیے آپ مسائل حل کرنے کے لیے آئے تھے نہ کہ مسائل میں اور اضافہ کرنے کے لیے۔  خدارا ملک اور قوم پر رحم کھائیے، ملک کو اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں کی وجہ سے مزید بحران کا شکار مت کیجیے۔ ہر شخص اپنا کام بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے۔ لہذا جو جس کا کام ہے وہ وہ ہی سر انجام دے۔ ورنہ نتیجہ یہی نکلے گا جو  نکلا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔