غیر سنجیدہ سیاسی رویہ

آئی ایچ سید  جمعرات 7 اگست 2014
syediftikharshah66@hotmail.com

[email protected]

عظیم یونانی فلسفی افلاطون نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا کہ ریاست کا سربراہ ایک فلسفی کو ہونا چاہیے چونکہ وہ فہم و فراست، عقل سلیم، ادراک اور وجدان سے ایک مثالی ریاست بنا سکتا ہے اور اپنی ریاست کو تمام برائیوں، مسائل، مصائب اور مشکلات کے چنگل سے آزاد کر کے انصاف اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، اور شاید مغربی اور مشرقی بعید کی قوموں نے اس اہم اور سیاسی اصول پر من و عن عمل کیا اور اپنے سیاسی اور سماجی مقاصد حاصل کرلیے۔

اب پاکستانی قوم بھی کچھ کر دکھانے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہے پچھلی دہائی سے میڈیا کے تیزی سے پھیلائے ہوئے شعور کی بدولت قوم اب کسی نئے زخم کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں اور اب اگر افلاطون کے بتائے ہوئے فلسفیانہ انداز فکر سے ملک میں تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرتی اور معاشی مسائل کو سلجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو بہت خون خرابے کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔

(ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت اور سرکردہ رہنما کپتان خان اور علامہ طاہر کو Underestimate کرنے کے بجائے انھیں مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کوشش کریں اور بامعنی گفت و شنید کا سلسلہ شروع کریں۔ چونکہ یہ مسلم لیگ (ن) ہی کی  قیادت تھی جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پر زور حامی تھی تو پھر آج مذاکرات کو شروع کرنے میں تذبذب کیوں؟ کیا خان اور ڈاکٹر صاحب کی حیثیت طالبان سے بھی کم ہے؟

اے عاقبت نااندیش لوگو خندہ پیشانی سے  عوامی رہنماؤں کے پاس چلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ حکمرانوں کا لچکدار رویہ حکومتوں کو مضبوط کرتا ہے کمزور نہیں۔ وطن پرستی کے جذبے سے مالا مال مسلم لیگ کے سیاسی اور جمہوری قیادت شاید ہمیشہ سے ہی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ جمہوری حکمرانی عوام سے مانگا ہوا وہ عارضی اختیار ہے ’’وہ بھیک‘‘ ہے جسے وہ جب چاہیں گے واپس لے لیں گے۔

جمہوریت کی اصل روح میں حکمران چند امتیازات کے ساتھ عوام کے خدمت گار ہوتے ہیں یہی جمہوریت کا حسن ہے یہی انداز عوامی حکمرانی ہے اس لیے آج ساری دنیا اسی سیاسی نظام میں اپنی قومی ضروریات کے مطابق چند اصلاحات کر کے اسے فوری طور پر اپنا رہی ہے۔ اس لیے جمہوری حکمران اصل میں عوامی خدمت گار ہوتا۔ اگر اتنی سی بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آ جائے کہ ’’نوکر کیہہ تے نخرہ کیہہ‘‘ یعنی نوکر کو نخرہ زیب نہیں دیتا۔

حزب اختلاف میں موجود کروڑوں افراد کے سربراہ بھی قوم کے معزز اور محترم رہنما ہوتے ہیں، وہ بھی اسی وطن عزیز کی مٹی کے اتنے ہی مالک ہیں جتنے حزب اقتدار کے۔ دانش مندی، خرد مندی، سیاسی فہم و فراست سے بھرپور جمہوری حکمران اپنے دور اقتدار میں حزب اختلاف کو ناراض کرنے کی کوشش سے کماحقہ اجتناب ہی کرتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو حزب اقتدار اپنے مخالفین کو مزاحمت کے راستے پر جانے سے پہلے ہی اپنی سیاسی بصیرت اور سیاسی سوجھ بوجھ کو بروئے کار لا کر اسے ہر صورت راضی کر لیتی ہے۔ اپنے مخالفوں سے کمپرومائز کرتی ہے کچھ لے دے کر انھیں کنونس کرتی ہے۔

حزب اقتدار کا کردار ان حالات میں مزید اہم تصور ہوتا ہے جب وطن عزیز بیرونی طور پر سازشوں میں گھرا ہوا ہو اور اندرونی طور پر دہشت گردی جیسی اعصاب شکن جنگ میں مصروف ہو، فوج ملکی بقا اور سالمیت کا دفاع کر رہی ہو۔ ایسے مخدوش حالات میں تو قومیں متحد ہوتی ہیں۔ اپنے باہمی سنگین اختلاف کو چاہے وہ کتنے ہی اہم کیوں بالائے طاق رکھ کر وطن عزیز کی خاطر جانوں کے نذرانے دینے والوں کو اور ان کے گھر والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم بھی اس مادر وطن کی خاطر اپنا تن، من، دھن ذاتی بغض، عناد، نفرت سب کچھ قربان کرنے کا یقین دلاتے ہیں۔

وطن صرف محبت ایثار قربانی بھائی چارے الفت ایک دوسرے کی معاشی خبر گیری کے جذبوں سے قائم ہوتے اور قائم رہتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی جذباتی اور نئی قیادت ٹیلی وژن پروگراموں میں اس بات کا رونا روتے ہوئے دکھائی دیتی ہے کہ ہمیں وقت نہیں مل رہا ابھی ہمیں صرف 14 مہینے ہوئے ہیں۔ ملک کا بجٹ شدید خسارے میں ہے ہم اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کر بھی رہے ہوں مگر مشکلات کے چنگل میں پھنسی ہوئی قوم ان سے یہ گلہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ سب سے پہلے قوم کو درپیش ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔

میٹرو بسز، پل، انڈرپاسز اور بائی پاسز اور موٹرویز بنانے کے بجائے ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار، توانائی کے دوسرے وسائل کو ترقی دینے کے لیے پیسے کیوں خرچ نہیں کیے گئے؟ جس کے نتیجے میں نئی فیکٹریاں لگتیں، بے روزگاری کا تناسب آہستہ آہستہ نیچے جانا شروع ہو جاتا پاکستانی قوم کو اچھی نیند اور روٹی میسر ہوتی، مہنگائی کی مد میں اشیا خورونوش میں سبسڈی دی جا سکتی تھی، قوم کی صحت سے متعلق اور بیماریوں کے علاج و معالجے کے انقلابی اقدامات کیے جا سکتے تھے زندہ رہنے کے لیے ادویات کی قیمتوں کو غریبوں کے لیے ارزاں کیا جا سکتا تھا۔ سیکیورٹی اور امن عامہ سے متعلق بہت کام کیا جا سکتا تھا ہماری سیکیورٹی فورسز کی فزیکل اور ٹیکنیکل صلاحیت اور قابلیت کو بڑھایا جا سکتا تھا۔

مذکورہ بالا یہ چار مسائل توانائی، مہنگائی، سلامتی اور صحت وہ مسائل ہیں جنھیں (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت کو اپنی پہلی ترجیح میں زبانی ہی نہیں عملی طور پر شامل کرنا تھا اگر ان چار مسائل پر بھرپور توجہ دے کر اسے 30 فیصد ہی بہتر کر لیا جاتا تو آج پاکستان مسلم لیگ (ن) اس طرح ’’تنہا‘‘ نہ کھڑی ہوتی یقینا ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہم سب کا دعاؤں پر ایمان ہے، مگر ترقی یافتہ اور مہذب قوم بننے کے لیے جس قوت نے انسانوں کو سب سے زیادہ حوصلہ اور کامیابی عطا کی اس میں دعاؤں سے زیادہ دوا ’’عمل‘‘ تھی جس کی وجہ سے قوموں نے پسماندگی سے ترقی کا سفر طے کیا۔ لہٰذا ’’حرم پاک‘‘ ضرور جائیں اپنی حکومت کے لیے دعا بھی مانگیں مگر واپس آ کر ملک کی سیاسی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ ’’دوا‘‘ بھی کریں۔

یعنی سیاسی طور پر اپنے آپ کو سرگرم کریں حزب اختلاف سے فوراً مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں ذاتی انا کو اپنے راستے کی دیوار بنانے کے بجائے اس کا فی الفور خاتمہ کریں۔ بڑے اسی وقت بڑے لگتے ہیں جب وہ چھوٹوں کو عزت و احترام کے ساتھ گلے لگا لیں۔ اپنے گرد موجود کم فہم، کم علم اور کم حلم لوگوں کو میڈیا پر حزب اختلاف کے متعلق طفلانہ اور عدم تحمل پر مبنی گفتگو کرنے سے روکیں تا کہ سنجیدہ گفتگو کی راہ ہموار ہو۔ اور اب ایسے اقدامات اٹھانے میں کسی قسم کی کاہلی اور سستی نہ دکھائی جائے جو قوم کو مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکالے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔