انقلاب، آزادی مارچ اور قومی مفاد…

عبد الوارث  جمعرات 7 اگست 2014

ملک اپنی تاریخ کے ایک نازک دورسے گزر رہا ہے۔ جب پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت جو اندرونی دشمن سے نبرد آزما  ہے۔ ہماری بہادر افواج اس دشمن کے خلاف برسر پیکار ہیں جس نے ملک کو ایک عشرے تک خون میں نہلا دیا۔ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ طویل عرصے تک قوم گو مگو کی کیفیت میں مبتلا رہی کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ فوج کشی یا  مذاکرات؟ آخر قوم کافی حد تک متحد نظر آئی کہ قوم اور ملک پر اسلحے کے زور پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے والوں سے فیصلہ کن جنگ کی جائے۔

لاکھوں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور جب تک یہ لوگ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد نہ ہوجائیں اس جنگ کے مکمل ثمرات حاصل نہ ہو پائیں گے۔ ان لوگوں کو بھاگ جانے والے دشمن کا اتحادی بن جانے سے روکنے کے لیے ان کی ہر ممکن دلجوئی کی ضرورت ہے۔ قوم اپنا 68 واں یوم آزادی منانے کے انتظار میں ہے لیکن ہمارے سیاست دانوں کی لڑائی نے ملک کو ایک عجیب دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے جس کے لیے یہ وقت نا مناسب ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے ایجنڈے سے شاید کسی کو اختلاف نہ ہو کیوں کہ اس کے یہ وہ سارے مطالبات ہیں جو کہ کسی ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن کیا اس کے لیے وقت کا انتخاب مناسب ہے؟ کیا اس وقت اس انقلابی مارچ خیر سے زیادہ انتشار کا پہلو نہیں نکلتا اور پھر سب سے بڑھ کر قوم اس طرح کے ایک مارچ کا نتیجہ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے دیکھ چکی ہے جب کہ ہزاروں لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگا کر حکومت کی محض چند یقین دہانیوں پر اس کو ختم کر دیا گیا اور ان یقین دہانیوں پر کبھی عمل نہیں ہوا لیکن وفاقی دارالحکومت جس طرح کئی دن تک مفلوج رہا اور ہر طرف بے یقینی اور خوف کے سائے منڈ لاتے رہے وہ یقینا قومی مفاد میں نہ تھا۔

انقلاب کبھی ڈنڈے کے زور پر نہیں آیا کرتے اگر آ بھی جائیں تو دیر پا نہیں ہوتے۔ دوسری طرف سونامی مارچ جس کو آزادی مارچ کے نام سے تبدیل کردیا گیا ہے ملک میں ایک خوفناک تصادم کی فضا کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا رویہ دن بدن سخت ہوتا جا رہا ہے اور وہ اب کسی بھی قسم کی بات چیت کرنے سے گریزاں ہے۔ پہلے چار حلقوں کی تصدیق کا مطالبہ پھر الیکشن اصلاحات کی بات اور اب حکومت کے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کی بات یا تو اس سیاسی جماعت میں پائے جانے والے کنفیوژن کا نتیجہ ہے یا پھر حکومت سے کھلے عام تصادم کی راہ اختیار کرنا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ فوج کے اضافی دستے اسلام آباد میں تعینات نہیں کیے جائیں گے بلکہ پہلے سے ہی موجود دستوں کو استعمال کیا جائے گا۔ آخر خبریں آنے تک حکومت تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے راضی ہو گئی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے اس مارچ کو ٹالا جائے جو کہ دیر آید درست آید  کے مترادف ہے لیکن تحریک انصاف اب مذاکرات سے انکاری ہے اور اپنے مارچ کی حکمت عملی سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، شاید اس کو حکومت کی نیت پر اعتبار نہیں اگر ایسا ہے تو ملک میں ایسے دانشور، اسکالرز اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ جن کو اس مذاکراتی عمل میں ایک ثالث کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔

انتخابی اصلاحات جس میں ووٹر لسٹوں کی درستگی، بائیو میٹرک نظام کا نفاذ، الیکشن کمیشن کی تنظیم نو، مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، انتخابی دھاندلی کے الزامات کی سپریم کورٹ کے حاضر جج سے ٹریبونل کی شکل میں تحقیقات۔ یہ وہ سرکاری امور ہیں جن پر اگر اتفاق رائے ہو گیا تو یہ یقینا تحریک انصاف کی بڑی کامیابی تصور کی جائے گی اور لانگ مارچ کی دھمکی سے یہ سارے مسائل کچھ مہینوں میں حل ہو جائیں گے۔ اس صورت میں تحریک انصاف ایک بڑے اسٹیک ہولڈر اور پریشر گروپ کی صورت میں ملک کے سیاسی افق پر اپنا بھرم رکھنے میں قائم ہو جائے گی جو کہ آنے والے دنوں میں پارٹی کے لیے مثبت نتائج اور زیادہ تعریفیں سمیٹنے کا باعث ہوگا۔

اب آتے ہیں اس Extreme پوزیشن کی جانب جو پارٹی نے لی ہوئی ہے جس میں اس نے نئے انتخابات سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ خود تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گا کہ یہ وہ مطالبہ ہے جو شاید فی الفور بالکل مانا نہ جائے کیوں کہ ملک کے مقتدر حلقے اس بات کے یقینا حمایت میں نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت سے اختلافات کے باوجود وہ اس نظام کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں اور تحریک انصاف کے علاوہ کوئی قابل ذکر سیاسی جماعت اس مطالبے کی حمایت کرتی نہیں نظر آتی۔

تو پھر ایسے مطالبے کا کیا فائدہ جس میں جیتنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو جب کہ ہار کے امکانات واضح نظر آتے ہوں۔ بقول شیخ رشید کے اگر تحریک انصاف نے اپنا دھرنا اس مطالبے کے بغیر ہی ختم کر دیا تو یہ اس کے لیے ناقابل تلافی نقصان اور سیاسی موت کے برابر ہو گا۔ جس سے پارٹی کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور عوام میں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں انتہائی کمی آ سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر موجودہ حکومت جو اس وقت انتہائی کمزور نظر آتی ہے۔

اس کو ایک دفعہ پھر توانا ہونے کا موقع ملے گا اور وہ تحریک انصاف کو آیندہ نہ تو کبھی سنجیدہ لے گی اور عین ممکن ہے کہ اس کے خلاف سیاسی انتقام بھی شروع کر دے جس سے اس کی خیبر پختونخوا حکومت (جو پہلے ہی آئی ڈی پیز کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اور ابھی تک عوام کی مطلوبہ توقعات پر پوری نہیں اتر پائی ہے) کو مزید مشکلات اور اس کے کارکنوں کا مورال کم ہونے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے پارٹی انتشار کا شکار ہو کر کمزور ہو سکتی ہے اور پھر اتنے سارے لوگوں کو کسی دہشت گردی سے بچانا صرف حکومت کی ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے کاندھوں پر بھی انتہائی بھاری ذمے داری عائد کرتا ہے اور خدانخواستہ کسی جانی نقصان اور دہشت گردی کی صورت میں پارٹی پر بے انتہا دبائو اور تحریک اور جد و جہد ختم کرنے کا وقت بھی آ سکتا ہے۔

لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت طاہر القادری اور عمران خان ایک ایک قدم پیچھے جائیں اور تصادم سے گریز کریں کیوں کہ اس صورت میں نقصان ہمارے عوام، ملک اور ریاست کا ہی ہو گا اور اس کا فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہی ہو سکتا ہے۔ جو فی الحال کافی کمزور ہوتے نظر آ رہے ہیں لیکن کسی بھی قومی انتشار کی صورت میں ان کو دوبارہ توانا ہونے کا موقع ملے گا۔ اس وقت ملک کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا ہر ایک کی ذمے داری ہے کہ وہ قومی مفاد میں جذباتیت ترک کر کے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے۔

کچھ موقع پرست سیاست دان جن کی عوام میں کوئی حیثیت نہیں اور ان کا کوئی قابل ذکر ووٹ بینک بھی موجود نہیں وہ ان حالات میں سیاسی افق پر آنے کے لیے طاہر القادری اور عمران خان کا سہارا لے رہے ہیں اور ہمارا میڈیا اور کچھ اینکرز اپنے ٹاک شوز کے ذریعے ان اختلافات کو (جن کو یقینا سیاسی طور پر حل کیا جا سکتا ہے) ہوا دے رہا ہے۔ شاید اس سے ان کے پروگرامز کی ریٹنگ تو بڑھ جائے لیکن یہ قطعاً قومی مفاد میں نہیں۔ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے مطالبات منوانا آج کل کے دور میں ایک زبردست ہتھیار کے طور پر گردانا جاتا ہے اور اس وقت ملک اور قوم کی بہتری بھی اس میں پوشیدہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔