(پاکستان ایک ںظر میں) - میں پاکستان ہوں!

حاجرہ افتخار  جمعرات 7 اگست 2014
مجھے ایسا بنا دو جہاں تعلیم ہر فرد کا مقدر ہو، جہاں ہر لڑکی کی عزت محفوظ ہو، جہاں غریب امیر کے ظلم کا شکار نہ ہو، ہاں خدارا میرے لیے اپنے خوابوں کا جہاں بعد میں تعمیر کرنا پہلے اقبال کے خوابوں کو پورا کر دو۔ فوٹو: فائل

مجھے ایسا بنا دو جہاں تعلیم ہر فرد کا مقدر ہو، جہاں ہر لڑکی کی عزت محفوظ ہو، جہاں غریب امیر کے ظلم کا شکار نہ ہو، ہاں خدارا میرے لیے اپنے خوابوں کا جہاں بعد میں تعمیر کرنا پہلے اقبال کے خوابوں کو پورا کر دو۔ فوٹو: فائل

مجھے جانتے ہو؟ میں ہوں پاکستان ! آؤ آج میں تمہیں اپنے بارے میں بتاؤں ،میں زمین کا محض ایک ٹکڑا نہیں  بلکہ میں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ ہوں۔ ان لاکھوں لوگوں کے لیے جو آج خود کو پاکستانی کہتے ہیں۔ میں اقبال کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو لاکھوں مسلمانوں کے لیے دیکھا گیاوہ خواب ہوں جسے نام چودھری رحمت علی نے دیا،میں قائداعظم کی انتھک کوششوں کا صلہ ہوں ۔مجھے پروان چڑھانے والے لیاقت علی خان اور مادر ملت فاطمہ جناح ہیں جنہوں نے قائد کے ہر اقدام میں یوں ساتھ دیا کہ دنیا کے نقشے میں میرا وجود یوں ابھر کر سامنے آیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔

وہ14 اگست1947 طلوع صبح کا وقت آج بھی تاریخ لکھنے والے نہیں بھولے جب دنیا کا نقشہ یوں تبدیل ہوا کہ خود کو گریٹ بریٹین کہنے والے انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے میں نے جنم لیا تھا پھر  میرے بانیوں نے دن رات ایک کر دیے تاکہ میرا مستقبل روشن ہو سکے۔لیکن وہ کیا جانتے تھے کہ لاکھوں جانوں کا نظرانہ دینے کے بعد ابھی انہیں میری بقااور سلامتی کے لیے اور قربانیوں دینی ہوں گی۔ مگر واہ میرے بچوں تم نے تو ثابت کر دیا کہ دھرتی ماں ہوتی ہے کیسا منہ توڑ جواب دیا وہ بھی ایک بار نہیں د و د و بار اور پھر کیسے ناکوں چنے چبوائے بھارت کو جب انہیں1965 میں یاد کراوایا کہ جو بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا اس کا یہی حال ہو گا ۔

میری تاریخ بہت سنہری تو نہیں مگر میری رگوں میں آج بھی میجر عزیز بھٹی ،محمد سرور،لالک جان اور کرنل شیر خان جیسے جوانوں کا خون دوڑ رہا ہے۔پھر میری معشیت کو مستحکم بنانے کے لیے ذوالفقارعلی بھٹو کے اقدام کو بھی تو نہیں بھلایا جا سکتا، ایک آئین پر پوری قوم کو متفق کرناکوئی آسان بات نہ تھی۔پھر بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے میں نے،کبھی جمہوریت مضبوط ہوتی نظر آئی تو کبھی مارشل لاء کی زد میں آ کر شدید زخم کھاتی رہی، کبھی ایٹمی طاقت بنا تو کبھی پھر ایک ظالم جرنیل نے جمہوریت کی سانسیں روک دیں کتنی، تکلیفیں برداشت کرکے جب جمہوریت نے دوبار زندگی شروع کرنا چاہی توسفاک دل لوگوں نے بینظیر بھٹو کو اپنا نشانہ بنا کر مجھے ایک اور جھٹکا دیا۔بہر حال پھر ایک بار جمہوری دور دورہ ہوااب کوئی اسے معاشی بدحالی تو کوئی جمہوری فروغ کہتا ہے۔ہر حصے کے لیے معاشی بدحالی کہنے والوں کو شاید تعمیراتی کام نظر نہیں آتےیا پھر وہ ان تعلیمی خامیوں کو دیکھتے ہیں جن کی بناء پر میں آج بھی ترقی کی وہ راہیں طے نہیں کر پایا جو میرا حق تھیں،یا ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اس لیے مجھ سے ہمدردی دکھاتے ہیں کہ آج بھی یہاں حوا کی بیٹی کی عزت محفوظ نہیں کہ آج اپنے ملک میں وسائل کی کمی کی وجہ سے میرے باشندے رزق کی تلاش میں نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے دور کہیں انجان نگر میں دنیا بسانے پر مجبور ہیں۔

میں بے شمار مسائل میں گھرا ہوں ،انتظار ہے تو آج بھی کسی مسیحا کاجو اقبال کی طرح میرے لیے آج بھی خوش خواب دیکھے اور قائد کی طرح اس خواب کی تعبیر کرے،خواہ وہ” نیا پاکستان” ہو یا “مجھ سے میرے اندھیرے مٹانے کا وعدہ” جو بھی ہو بس میرا محبوب شہری ہو جو مجھ سے محبت صرف جشن آزادی کی جھنڈیاں لہرا کریا کسی سیاسی قائد کے سیاسی بیانات پر نعرے لگا کر نہ کرے بلکہ اپنی محبت کو یوں عملی جامہ پہنائے کہ زندگی کہ ہر مرحلے پر اﷲ کامیابی میرا مقدر کر دے ، پھر کوئی راشد منہاس پیدا ہو سکے جو کم عمری میں ماں کی گود سے ہی میری محبت لے کر آئے، پھر کوئی ڈاکڑ عبدالقدیرخان ہو،پھر ہر بچی عارفہ کریم جیسا ذہن لے کر پیدا ہو، یہاں پھر عمران خان اور اختر رسول جیسے کھلاڑی کھیل کے میدانوں کو آباد کر دیں، کئی میٹرو بس منصوبے ہوں اور کئی سولر منصوبے ہوں۔

میں کہتا ہوں کہ نہ بناؤ نیا پاکستان ،نہ لاؤ یہاں کوئی نیا ’’انقلاب‘‘  بس مجھے ایسا بنا دو جہاں تعلیم ہر فرد کا مقدر ہو، جہاں ہر لڑکی کی عزت محفوظ ہو، جہاں غریب امیر کے ظلم کا شکار نہ ہو، ہاں خدارا میرے لیے اپنے خوابوں کا جہاں بعد میں تعمیر کرنا پہلے اقبال کے خوابوں کو پورا کر دو۔۔۔ خدارا کوئی ہے جو میری پکار سنے، ہے کوئی۔۔۔؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔