اسرائیلی حملوں اور قحط کے باعث مزید 59 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق، جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے شمال مغرب میں اسرائیلی توپخانے نے بے گھر خاندانوں کے خیموں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 16 افراد شہید ہوئے، جن میں 6 بچے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ وسطی غزہ کے مغازی پناہ گزین کیمپ میں ڈرون حملے میں 2 فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ امداد کے انتظار میں کھڑے مزید شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
محکمہ صحت کے مطابق غذائی قلت کے باعث بھی مزید 8 فلسطینیوں نے دم توڑ دیا، جن میں 2 بچے شامل ہیں۔ یوں قحط کے آغاز سے اب تک بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 281 ہوگئی ہے، جن میں 114 بچے شامل ہیں۔
وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البُرش نے کہا کہ قحط غزہ کے عوام کے جسموں کو خاموشی سے نگل رہا ہے، بچوں کو زندگی کے حق سے محروم کر رہا ہے اور خیموں اور اسپتالوں کو روزانہ کے سانحات میں بدل رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے 22 اگست کو غزہ میں باضابطہ قحط کا اعلان کیا اور اسرائیل پر امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اس قحط کو انسانی ہاتھوں سے پیدا کردہ سانحہ قرار دیا۔ عالمی اداروں کے مطابق غزہ کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی، یعنی 5 لاکھ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہیں اور یہ تعداد ستمبر کے آخر تک مزید بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوج غزہ میں 62 ہزار 600 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے۔