عید گزر گئی یوم آزادی کا انتظار

قمر عباس نقوی  جمعـء 8 اگست 2014

اسلامی یا قمری سال کا نواں مہینہ رمضان بالتفصیل تین عشروں ’’رحمت‘‘، ’’مغفرت‘‘ ، ’’نجات‘‘ کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ تیس  روزوں پر مشتمل یہ ماہِ صیام جس کو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ کہیں گے عید الفطر کی شکل میں اختتام پذیر ہوا۔ عید الفطر کیا ہے؟ فطرت کی عید یا خوشی کا موقع ہے۔ ماہِ صیام کے آخری عشرے میں اعتکاف کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کاملہ کے وجود کا برملا اظہار ہے۔

صبح صادق میں نیند سے بیدار ہونا، سحری کھانا، فجر کی نماز ادا کرنا اور دن کا تمام حصہ دنیاوی اور اُخروی کاموں کو صبر و استقامت کے ساتھ گزار دینا سب اللہ کی پیروی کی نشانیاں ہیں۔ بھوک، پیاس جیسی شدت کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کے عمل کو بارگاہ ایزدی میں گزارنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محل بنانے کے مترادف ہے اس عمل سے اپنے نفس پر قابو رکھنے کے علاوہ دوسرے کی بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس دلانا یہی انسان کی زندگی کا مقصد حیات ہے۔

عید منانا ہر انسان کا معاشرتی مذہبی، سماجی حق ہے خواہ وہ کسی بھی وجہ سے روزے کی سعادت حاصل نہ کر سکا ہو لیکن روزے دار کے ثواب میں برابر کا شریک رہا۔ عید کے پر مسرت موقعے پر زکوۃ، خمس کی ادائیگی کا عمل بھی گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی جاری رہا۔ اس عید سعید پر ہم نے محسوس کیا کہ عید کا رنگ پھیکا پڑتا جا رہا ہے وہ روایتی خوشیاں اس عید پر دیکھنے کو نہیں ملی جو آج سے ایک عشرہ قبل دیکھنے کو ملا کرتی تھیں۔

بچے نیا کپڑے جوڑے سلواتے، نئے جوتے خریدتے، بزرگوں کو سلام میں پہل کرتے تا کہ نئے نوٹوں کی شکل میں ’’عیدی‘‘ مل سکے،  حالانکہ عید منانا ہمارا مذہبی تہوار ہے۔ عید کی روایتی خوشیاں ماند پڑنے کی نیادی وجوہات بے روزگاری، ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، آبادی میں ہوش ربا اضافہ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ سے ہونے والی ہلاکتیں جنہوں نے گھروں کی رونقوں کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی ہلاکتیں اور قبرستانوں کی آبادی میں اضافہ بھی عید کی رونق اُجاڑ نے کا سب سے بڑا سبب ہو سکتا ہے۔ اس عیدِ سعید پر جس قدر رش قبرستانوں میں دیکھنے کو ملا شاید پہلے کبھی بھی نہ ہوگا۔

مزے کی بات یہ کہ اس عید کو منانے میں حکومت کی طرف سے فراخ دلی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ چار دن کی سرکاری چھٹی کا اعلان اور دو دن ہفتہ اتوار شامل کرنے کے بعد چھ دن کی چھٹی کا اہتمام کیا گیا۔ ملک کا دار الخلافہ ’’اسلام آباد‘‘ ایک ہفتے تک صحرائی منظر پیش کرتا رہا۔ بلاشبہ عید کے اس تہوار کی ان چھٹیوں کا ایک فائدہ جو ہمیں نظر آیا وہ یہ تھا کہ ہم بھرپور طریقے سے اپنے عزیز و رشتے داروں کے ساتھ رابطہ میں رہے۔

ادھر عید کے موقعے پر بجلی کے طویل بریک ڈائون نے عوام کا جینا حرام کر دیا۔ کچھ علاقوں میں غیر اعلانیہ بجلی کو بارہ بارہ گھنٹے غائب رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ جب کہ بجلی کا ادارہ جس کا ٹائٹل نام KESC غائب کر کے K-Electric تک محدود کر دیا گیا ہے یعنی چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق پر عوام کو لوٹنے کا ایک ذریعہ ہے۔ رات گئے بجلی غائب رکھنا اور مہینے کے آخر میں نا قابل برداشت واجبات کی ادائیگی کا بل جو مقررہ تاریخ میں عدم ادائیگی کی صورت میں بجلی منقطع کرنے کا عندیہ دینا۔

اب سے چند دن بعد یعنی چودہ اگست بھی قریب ہے جو یقینا ہماری آزادی کا دن ہے اور ہم اس کو منانے کی شا یانِ شان طریقے سے منانے کی بھرپور تیاریوں میں ہمہ تن مصروف  ہو چکے ہیں۔ عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے اور یوم آزادی ہمارا قومی فریضہ ہے یکے بعد دیگر ے دونوں خوشیوں کا منانا ہمارے لیے باعث مسرت ضرورہے۔ ایک اندازے کے مطابق جشن آزادی کی تیاریاں صرف تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہو چکی ہیں۔67 سال کا طویل عرصہ ہوا ہمیں تاج برطانیہ اور غیر منقسم ہندوستان سے آزاد ہوئے۔ آہ!  کیا لکھوں؟  آنکھوں میں آنسو ہیں!  مرثیہ لکھوں؟  نوحہ خوانی کروں؟  1947ء میں میرے والد ریلوے میل سروس امرتسر میں ملازم تھے۔ وہ ٹرین میں امرتسر سے براستہ لاہور گوجر خان تک ڈیوٹی کی انجام دہی پر مامور تھے۔

آزادی کے اعلان کے وقت وہ ٹرین میں امرتسر اور اٹاری کے درمیان میں تھے کہ اچانک سکھوں کے ایک گروپ نے تیز دھار کرپانوں کے ساتھ ٹرین پر ہلّہ بول دیا، انھوں نے بے دردی سے مسلمان مسافروں کے جسمانی اعضاء تن سے جدا کر دیے۔ والد صاحب نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دُعائوں کا ورد کرتے ہوئے، چھپتے چھپاتے بہت مشکل سے پیدل لاہور تک پہنچے۔ جہاں انھوں نے سامان سے بھرے  ایک ہندو کے مکان میں پناہ لی جو اپنا مکان سامان سمیت چھوڑ کر بھاگا تھا۔

اس واقعہ کو یہاں لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آزادی پلیٹ میں رکھا ہوا کوئی تحفہ نہیں، اس میں ہزاروں کی تعداد میں انسانی خون شامل ہوتا ہے۔ ان کی قربانیوں کا ثمر آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ ہم نے ملک کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ بنگالیوں کی اکثریتی آبادی والا مشرقی پاکستان جو ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش کی شکل میں ایک آزاد ریاست بن گیا۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ہم نے دور کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ قبائلی علاقہ جات ہماری دسترس سے دور ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان صوبوں کی خودمختاری ہم کھوتے جا رہے ہیں۔

وطنِ عزیز کے کونے کونے پر جہاں بھی نظر دوڑائیں انسانی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آئے گی۔ بھوک و افلاس، انسانیت کا قتلِ عام ایک جمعہ بازار کی طرح ہمارے سامنے ہے اور ہم بے حسی کے عالم میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ملک و قوم کی ترقی دو مربوط پالیسیوں کا سرچشمہ ہو ا کرتی ہے (۱) اندرونی پالیسی (۲) خارجہ پالیسی۔ خارجہ پالیسی اسی طرح مستحکم ہو گی جب آپ اندرونی معاملات میں مضبوط ہونگے۔

ہماری خارجہ پالیسی بے جا قرضوں کے حصول اور اس کی ری شیڈولنگ کی وجہ سے غیر مؤثر ہو کر رہ گئی ہے اور ہمارے صاحبانِ اقتدار ان قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈال کر ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ ہم ایٹم زدہ سرزمین میں بجلی زدہ رعایا بن کر رہ چکے ہیں۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بیرونِ ملک شفٹ ہو چکا ہے۔ جن کی تعلیمی و ذہنی استعداد ملک کی ترقی میں شاندار سیڑھی ثابت ہو سکتی تھی۔ ہمارا مستقبل تاریک ہے کیونکہ مسلمان ہی مسلمان کی خون ریزی میں برابر کا شریک ہے۔ اسی لیے حضرت علیؓ  فرماتے ہیں کہ: ’’لوگوں میں جب تک جہالت اور خود غرضی موجود ہو وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔