پنجاب کی سالٹ رینج میں بھارتی بھیڑیے کی دوبارہ موجودگی، پہلی بار سرکاری شواہد حاصل

یہ پیش رفت پنجاب میں معدومی کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ہے


آصف محمود August 26, 2025

لاہور:

پنجاب کی سالٹ رینج میں بھارتی بھیڑیے (انڈین وولف) کی دوبارہ موجودگی کے شواہد سامنے آ گئے ہیں اور پہلی بار سرکاری طور پر اس نایاب جانور کی تصویری شواہد حاصل ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت پنجاب میں معدومی کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات پنجاب مدثر ریاض ملک نے بتایا کہ کالا باغ کے قریب یہ تصویر محکمے کے سرکاری فوٹوگرافر نے بنائی ہے۔ ان کے بقول یہ پہلا موقع ہے جب حکومت کے پاس اس نسل کے ڈیجیٹل شواہد موجود ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب میں نایاب جنگلی حیات کی اقسام دوبارہ بحال ہو رہی ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے۔

اس دریافت سے قبل 23 اپریل 2025 کو ایکسپریس نیوز نے موٹر وے ایم ٹو کے قریب سالٹ رینج میں بھارتی بھیڑیے کی ویڈیو نشر کی تھی جس کی بعد میں وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے بھی تصدیق کی تھی۔ کئی دہائیوں تک اس علاقے میں اس نسل کی عدم موجودگی کے باعث اسے مقامی طور پر معدوم سمجھا جاتا رہا ہے۔

ماضی میں 2008-2009 کے دوران لیہری نیچر پارک، جہلم میں کیے گئے سروے میں صرف چھ بھیڑیوں کی موجودگی کے شواہد ملے تھے۔ اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی بھیڑیا اب بھی پنجاب اور سندھ کے نیم بنجر علاقوں میں پایا جاتا ہے، تاہم اس کی تعداد نہایت کم اور غیر محفوظ ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر بھیڑیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں مانی جاتی جن میں اکثریت شمالی علاقوں کے تبتی بھیڑیوں کی ہے۔

ڈپٹی چیف وائلڈ لائف رینجر سالٹ رینج محمد زاہد کے مطابق حالیہ تصویری و ویڈیو شواہد اس بات کا اشارہ ہیں کہ یہ خطہ دوبارہ نایاب جنگلی حیات کے لیے سازگار ہو رہا ہے۔ ان کے بقول بھیڑیے ماحولیاتی توازن کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ کمزور اور بیمار جانوروں کو شکار کرتے ہیں۔

پاکستان میں بھارتی بھیڑیے پر ایک جامع سروے کیا جارہا ہے جو 30 ستمبر 2024 کو شروع ہوا اور 31 اکتوبر 2025 تک مکمل ہوگا۔ اس دوران پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس نسل کی موجودگی کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی تعداد 200 سے 300 کے درمیان ہو سکتی ہے لیکن مستند اعداد و شمار اسی سروے کے بعد سامنے آئیں گے۔

ری وائلڈ پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کی پروگرام ڈائریکٹر ربیعہ شعیب نے کہا کہ تحقیق کا مقصد ان مساکن کی نشاندہی کرنا ہے جنہیں بفر زون قرار دے کر محفوظ بنایا جا سکے، جبکہ ڈی این اے تجزیے کے ذریعے اس نسل کی جینیاتی ساخت کا بھی مطالعہ کیا جا رہا ہے۔

وائلڈ لائف کنزرویشن کے ماہربدرمنیر نے اس پیش رفت کو سنگ میل قرار دیا اور کہا کہ زمینی شواہد کے بغیر بھارتی بھیڑیے کی موجودگی ثابت کرنا مشکل تھا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک منظم جینیاتی سروے کے ذریعے اس کی بقا کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر غیر قانونی شکار، کان کنی اور انسانی مداخلت کو قابو میں نہ لایا گیا تو سالٹ رینج میں یہ نایاب نسل پھر خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔

مقبول خبریں