(دنیا بھر سے) - چین سے دوستی، فائدہ یا نقصان؟

خزیمہ سلیمان  جمعـء 8 اگست 2014
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو تو ہر جانب احتجاج ہوتا ہے مگر جب یہی کچھ چین میں ہو تو خاموشی ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو تو ہر جانب احتجاج ہوتا ہے مگر جب یہی کچھ چین میں ہو تو خاموشی ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حضور ماناکہ پاک چین دوستی،پہاڑوں سے بلند،سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے مگر اب کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کیے اُن کے ہر اقدام کی حمایت کرتے جائیں،چاہے وہ غلط ہوں؟ گو دوستی میں کئی باتیں نظر انداز کرنا پڑتی ہیں مگر بات جب بگڑ جائے تو اس پر بات کرنا،آواز اُٹھاناضرور ہو جاتا ہے۔ 

چین کا شمال مغربی صوبہ،’’ سنکیانگ‘‘ ایک مسلم اکثریتی نیم خود مختار صوبہ ہے۔جہاں پر کچھ عرصہ سے حالات کشیدہ ہیں۔آئے دن حکومت کی جانب سے،مسلمانوں پر مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ آپ پچھلے دو ماہ کے دوران وہاں ہونے والے معاملات پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہ واضح نظر آئے گا کہ وہاں کی حکومت عوام کی ذاتی زندگیوں میں حد سے زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے اور یہ حالات کو مزید خراب کرنے کی علت ثابت ہو رہی ہے۔

حکمران جماعت کیمونسٹ پارٹی نے پہلے رمضان المبارک کے دوران مسلمان سرکاری ملازمین اور طلباء پر روزہ رکھنے کی پابندی عائد کی اور چینی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے گھر گھر جا کر اُنہیں مفت کھانا پیش کیاگیاتاکہ معلوم ہو سکے کہ کیا لوگوں نے پابندی کے باوجود روزہ تو نہیں رکھا۔

اس کے بعد سنکیانگ کے آہم شہر ’’کاشغر‘‘ میں یکم اگست کو چھ سو سالہ پرانی مسجد کے امام،جمعہ طاہر کو فجر کی نماز کے بعد تین افراد نے بے دردی سے قتل کر دیا۔ جمعہ طاہر پورے ملک میں قدر اور عزت کی نگا ہ سے دیکھے جاتے تھے اور کئی سالوں سے امامت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ چین میں مساجد میں امام حکومت کی مرضی سے ہی تعینات ہوتے ہیں اور جمعہ طاہر کو بھی کیمونسٹ پارٹی نے ہی تعینا ت کیا تھا۔ اوراب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی خدشات کو وجہ ٹھہراتے ہوئے ،با حجاب خواتین اور داڑھی والے افراد کو پبلک بسوں میں سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔

ان تین واقعات سے سنکیانگ کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کوبے حد ٹھیس پہنچی ہے اور حکومت کے ایسے اقدامات شورش پیدا کرنے کا بھی باعث بن رہے ہیں۔چینی مسلمانوں میں بھی حکومت کے اس رویے کے خلاف اشتعال جنم لے رہا ہے۔ دین اسلام چین میں سرکاری طور پر رائج پانچ مذاہب میں سے ایک ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے خلاف یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔انہی اقدامات کے رد عمل میں انتہا پسند ،جلا وطن جماعت، ورلڈ یغور کانگریس کی جانب سے حکومت مخالف کاروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور اگر چینی حکومت اور کیمونسٹ پارٹی نے اپنے اس رویے میں تبدیلی نہ پیدا کی تو حالات مزید بگاڑ کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ اس طرح حکومت مسلمان عوام کی حمایت بھی کھو دے گی اور عالمی سطح پر بھی اس کو تنقید کا سامنا کرناپڑے گا۔
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ پاکستان،جہاں اسلام سے محبت کرنے والوں اور اس کے لیے مر مٹنے والوں کی بڑی تعداد رہتی ہے،نے چین کے اس اقدام پر ذرا بھی آواز نا اُٹھائی،جبکہ اگر یہی کچھ کہیں بھارت میں ہو جاتا تو پورے ملک میں احتجاجی ریلیوں،جلسے جلوسوں اور میڈیا تحریکوں کا زور دار سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کیا چین میں رہنے والے مسلمان ہمارے لیے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے کم اہمیت کے حامل ہیں یہ پھر یہ شہد سے میٹھی،پہاڑوں سے اُنچی اور سمندروں سے گہری دوستی ہمارے لیے ہمارے عقائد،دین اور نظریات سے زیادہ اہم اور مقدس حیثیت اختیار کر چکی ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔