(دنیا بھر سے) - پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں

وقار احمد شیخ  جمعـء 8 اگست 2014
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپنی خرابیوں، اپنی خامیوں پر نگاہ ڈالنے کے بجائے کیوں دوسروں کے دامن کے داغ دکھائے جاتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپنی خرابیوں، اپنی خامیوں پر نگاہ ڈالنے کے بجائے کیوں دوسروں کے دامن کے داغ دکھائے جاتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ایک عجب روش پر چل پڑی ہے یہ قوم بھی اور اس قوم کے میڈیا کا بھی الگ حال ہے۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے، لیکن زمانہ کیا بدلا، اخلاقیات کے تقاضے بھی بدل گئے۔ اب اپنے گریبان میں جھانکنا یا اصلاح احوال کرنا تو درکنار دوسروں پر اس طرح انگلی اٹھائی جاتی ہے، وہ واویلا کیا جاتا ہے کہ جیسے اس شور خرابے میں اپنی غلطیاں، اپنی خامیاں چھپا لی جائیں گی۔ کچھ عرصے سے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل نیٹ ورک ہر فورم پر اپنے ملک و قوم کی خامیاں چھوڑ کر دیگر ممالک پر تنقید کا چلن اپنا لیا گیا ہے۔ 

اب اس ہی خبر کو دیکھ لیجیے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر داڑھی رکھنے والے افراد اور باحجاب خواتین کے بسوں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ خبر کے دیگر مندرجات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حصے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے مذہبی منافرت کا تاثر ابھرتا ہے۔ سوشل نیٹ ورک پر بھی لوگ اس خبر اور اسی طرح کی دیگر خبروں کو ایک الگ روپ دے کر مذہبی تناظر میں پیش کررہے ہیں اور دیگر ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ خراب رویے کا رونا رو رہے ہیں۔ (مبادا ہمیں بھی بیرونی ایجنٹ نہ سمجھ لیا جائے اس لیے پیشگی معذرت ضروری ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کے خلاف استعماری مظالم کو برا ہی سمجھتے ہیں لیکن یہاں مطمع نظر دوسرا ہے)۔

ذرا اسی خبر کے دیگر مندرجات پر بھی نظر ڈال لیں۔ ’’غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ کے شہر کرامین میں کھیلوں کے مقابلوں کے پیش نظر سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے باحجاب خواتین، داڑھی رکھنے والے افراد اور چاند تارے والے روایتی لباس زیب تن کیے گئے افراد پر بسوں میں سفر پر پابندی ہوگی جب کہ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پولیس حراست میں لے کر تادیبی کارروائی کرے گی۔ واضح رہے کہ سنکیانگ چین کا مسلم اکثریتی نیم خودمختار علاقہ ہے، لیکن کچھ عرصے سے یہاں شورش برپا ہے، جس کے پیش نظر گزشتہ ماہ حکام نے صوبائی دارالحکومت ارومقی میں مسافروں پر بسوں میں سگریٹ لائٹرز اور پانی بھی لے جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔‘‘

صاف عیاں ہے کہ وہاں کی حکومت اپنے عوام کی حفاظت کے پیش نظر کس طرح کے اقدامات کررہی ہے، اس پوری خبر میں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تذکرہ نہیں لیکن ہمارے میڈیا اور عوام اس خبر کو مذہبی تناظر ہی میں دیکھیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ بنادیا گیا ہے اور منجمد اذہان خود سے کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے، انھیں جو خیال تھما دیا جاتا ہے اسی پر طبع آزمائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔

ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپنی خرابیوں، اپنی خامیوں پر نگاہ ڈالنے کے بجائے کیوں دوسروں کے دامن کے داغ دکھائے جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ پاکستان کو چھوڑ کر ہر جگہ ’’سب اچھا ہے‘‘ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پڑوس کی ابترحالی کی شکایت کرنے کے بجائے پہلے اپنا گھر صاف کرلیا جائے۔

اور اگر لوگ ہر معاملے کو مذہبی اقدار سے ہی جوڑنے کے عادی ہیں تو پاکستان میں ہونے والے اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر آپ کیا کہیں گے؟ ذرا گرد و پیش کی خبر لیں، ہندو لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کراکر شادی کرانے کی خبریں زیادہ پرانی نہیں ہوئیں۔ آخر کس ڈگر پر جارہے ہیں یہ حالات؟ ہم کسی بھی غیر ملک سے کوئی شکایت کرنے کے لائق کہاں رہے؟ چلیں یہ موضوع بھی چھوڑیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ ہماری ہمدردی پر ’’صاحب ایمان‘‘ حضرات ہمارے خلاف کوئی فتویٰ صادر نہ کردیں۔ ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ ہمارے نبیؐ نے ہر مذہب کے انسان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا اور اپنی امت کو بھی یہی تلقین کی۔ لیکن ہمارے ملک میں تو ہمارے ہم مذہب بھی جس حال میں ہیں اس پر دل رنجور ہے۔ طبقاتی چادر تو خود مسلمانوں کے درمیان بھی تنی ہوئی ہے۔

ہمارا شکوہ تو عوام خاص کر سوشل نیٹ ورک استعمال کرنے والے بہت مستعد اور ایکٹیو یوزرز اور میڈیا سے ہے کہ ہر خبر کو اس طرح اچھالا جاتا ہے کہ ایک ہوّا بن جاتا ہے، اور پھر انسانی سرشت کہ ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچتے اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے الفاظ کے ردوبدل سے بات ’’کچھ سے کچھ‘‘ ہوجاتی ہے۔ خیر ہم اب اس موضوع کو سمیٹتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں سوشل میڈیا کے ناقدین ہمارے اس بلاگ پر اپنی خامہ فرسائی سے باز نہیں رہنے والے۔ صرف ذوق کا یہ پیغام آپ قارئین کے نام کرتے ہیں کہ شاید کچھ اصلاح احوال ہو۔

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔