دیکھیے تو بیانات،اعلانات،اشتہارات اور روزانہ خوش خبریات،ہزاروں پہلی ترجیحات، تحفظات،تجزیات،دانا دانشوروں کے کلمات کے رنگین پردوں کے پیچھے ہمارے معاشرے کا جو اصل چہرہ ہے وہ بہت بدنما،داغ دار اور کریہہ المنظر ہے۔ کرپشن میں ٹاپ،جھوٹ میں ٹاپ، منافقت میں اے گریڈ اور جرائم ،بے راہرویوں اور ــ’’فروشیوں‘‘ میں عالمی نمبرون ہے۔یہ ایک ایسا خوش نما،خوش رنگ اور خوشبودار’’پھل‘‘ ہے جو بظاہر تو صحیح و سالم، تازہ بتازہ اور اشتہا انگیز نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر دنیا بھر کے کیڑے کلبلا رہے ہیں اسے کھا رہے ہیں سڑا رہے گلا رہے ہیں۔اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہو یا جس کے لیے کسی دلیل کسی شہادت یا ثبوت کی ضرورت ہو سب کچھ عیاں ہے عریاں ہے اور برسرمیدان ہے۔
ایک معمولی چھابڑی فروش سے لے کر ٹاپ کے تاجروں اور صنعت کاروں تک ایک چپڑاسی سے لے کر افسر اعلیٰ تک،سپاہی سے لے کر جی جی اور پی پی تک ایک پارٹی کارکن سے لے کر سربراہ تک،گاؤں کے کونسلروں سے لے کر وزیروں مشیروں تک سب کے سب کرپٹ اور شارٹ کٹوں پر چل رہے ہیں۔ ہر کوئی جب صبح اٹھتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ میں آج کیا ’’کام‘‘ کروں گا بلکہ یہ سوچ کر جاتا ہے کہ کیا کیا کام دکھاؤں گا اور کیا کیا کماکر لاؤں گا اور اس کے لیے ہمارے پاس جو دلیل ہے ثبوت ہے، شہادت ہے اسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔
یہ خطہ جہاں ہم رہ رہے ہیں وہی خطہ ہے نا جو دنیا میں سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور تھا جس کی شہرت سن کر دنیا بھر کے شکاری اسے شکار کرنے آتے تھے۔خشکی کے راستے سے بھی اور پانی کے راستوں سے بھی۔اپنے سر ہتھیلی پر لے کر سرپر کفن باندھ کر لمبی لمبی مسافتیں طے کرکے خون بہاتے ہوئے اور خون میں نہاتے ہوئے آگ کے دریاؤں میں ڈوب کر پہنچتے تھے۔نہ دیس کی پروا نہ پردیس کا غم بلکہ اپنے دیسوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر یہیں کے ہوجاتے تھے۔لیکن آج ایسا کیا ہوا ہے سوچیے غور کیجیے کہ لوگ اس سے دور دور بھاگ رہے ہیں فرار ہورہے ہیں اپنی ماں کی آغوش سے بھی کوئی بھاگتا ہے؟سل روپئی پہ پور کا۔خپلہ شپہ پہ کور کا۔ ترجمہ۔ سو روپے ادھار لو۔ مگر رات اپنے گھر گزار لو۔لیکن وہ’’سو‘‘ روپے ادھار لے کر اپنے گھر سے بھاگ رہا ہے۔
پرانے زمانے میں بھی شاید ایسا ہوا ہوگا کہ جب جنت میں برتری اور قبضے کا ابلیس آیا، تو اس نے آدم کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔کیا عجیب سا اتفاق ہے کہ اس وقت بھی حضرت آدم ہندوستان کے پہاڑوں پر اترے تھے اور حضرت حوا سعودی عرب کے جدہ میں اتری تھیں۔ اور آج بھی آدم زاد ان پہاڑوں سے بھاگ کر جدہ وغیرہ بھاگ رہا ہے۔اس سلسلے میں جتنے بھی ’’کیوں‘‘ ہیں اور پھر اس ’’کیوں‘‘ کے اندر اور بے شمار کیوں ہیں ان سب کا جواب ایک ہی ہے۔
کہ جب کسی سرزمین کے وسائل پر چند لوگ قابض ہوجاتے ہیں توعام لوگ بھوک ننگ محرومی اور مجبوری کا شکار ہوجاتے ہیں، دس روٹیوں میں سے جو دس لوگوں کے لیے ہوتی ہیں، تین ہاتھ بڑھا کر دو دو روٹیاں اٹھالیتے ہیں تو باقی سات لوگ چار روٹیوں میں گزارا کیسے کریں گے، یقیناً کہیں اور جاکر اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے اور وہی کررہے ہیں۔ بھوک وہ ظالم ’’کمان‘‘ ہے جس کے آگے ’’تیر‘‘ بے بس ہوجاتا ہے۔یہ ایک کا ہوت نما محاورہ ہے۔ کہ کسی نے ’’تیر‘‘ سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں اڑ یا بھاگ رہے ہو۔ ’’تیر‘‘ نے کہا کیا کروں میرے پیچھے کمان کا زور ہے۔اور بھوک کی کمان کا تیر پھر یہ نہیں دیکھتا کہ کہاں جانا ہے، کہاں لگنا ہے کہاں گھسنا ہے اور کہاں ٹوٹنا ہے
ٹوٹے نہ یہ سانسوں کا تسلسل مرے ہمدم
یہ قافلہ ہائے عمر بہت تیز قدم ہے
ظاہر و باہر ہے سب کچھ سامنے ہے کھلا ڈلا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس ناہمواریت،ناانصافی اور استحصال کا بری طرح شکار ہے۔پندرہ فیصد اشراف جو کچھ نہیں کرتے۔یا لسی بھی دوسروں کے ہاتھوں سے پیتے ہیں جو صرف باتوں کے بتنگڑ بناتے ہیں صرف بیانات دیتے ہیں اور وسائل کا پچاسی فیصد ہڑپتے ہیں اور وہ جو پچاسی فیصد میں جو کماتے ہیں اگاتے ہیں لاتے ہیں پیدا کرتے ہیں ان کو اپنی ہی محنت کا پندرہ فیصد بھی نہیں ملتا وہ کیا کریں گے کہاں جائیں گے
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری سلطانی بھی عیاری
یہاں ہم نے اس’’درویشی‘‘ کا ذکر نہیں کیا جو اشرافیہ کی جدی پشتی ساجھے دار ہے۔جو ہمیں’’کل‘‘ کی خوشحالی کی امید پر ٹرخا کر ہمارا ’’آج‘‘ لوٹ رہے ہیں یا لٹوانے میں اشرافیہ کا ساجھے دار اور مددگار ہے۔