خونخوار اسرائیل مشکل میں

عبید اللہ عابد  اتوار 10 اگست 2014
اسرائیلی بمباری سے ہ غزہ کی پٹی کا 44 فی صد رقبہ ناقابل رہائش ہو چکا ہے۔ فوٹو : فائل

اسرائیلی بمباری سے ہ غزہ کی پٹی کا 44 فی صد رقبہ ناقابل رہائش ہو چکا ہے۔ فوٹو : فائل

غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں شہادتوں کے اعدادوشمار ہرلمحہ تبدیل ہورہے ہیں۔

جب یہ سطور رقم کی جارہی تھیں تو اٹھارہ سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے تھے۔غزہ کے ہسپتالوں کے دورے پر آئے یورپی طبی عملے کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں90 فی صد ہلاکتیں اور زخم عام شہریوں کو آئے ہیں۔ یورپی وفد کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ ہسپتالوں، گاڑیوں، مساجد اور سکولوں اور ان کے ساتھ ساتھ بے گھر لوگوں کے شیلٹرز اور مہاجر کیمپوں پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔‘‘

غزہ میں رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دینے والے نارویجین ڈاکٹر میڈز گلبرٹ نے الشفاء ہسپتال میں سینکڑوں فلسطینی بچوں کے لاشوں کی تصاویر بناتے ہوئے کہا ’’ خدا کے واسطے مجھے بتایا جائے کہ کیایہ بچے دہشت گرد ہیں۔‘‘ ان کے بقول’’میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اتنا خون نہیں دیکھا ہے‘‘۔گلبرٹ نے اقوام متحدہ، بارک اوباما اور یورپی ممالک کو اس نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی مشیر برائے انسانی حقوق اوران کی پرنسپل سیکرٹری فالیری آموس نے بھی غزہ میں انسانی حقوق کی صورت حال کو نہایت ’’خوفناک‘‘ قراردیاہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دوسری عالمی تنظیموں کی جانب سے غزہ کی پٹی کی مخدوش صورت حال پر گہری تشویش کے ساتھ ساتھ خوراک، پانی، ادویہ اور دیگر بنیادی ضروریات کی قلت کے مضمرات پر انتباہ کیا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فوری اور ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع نہ کی گئیں تو شہر میں انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔مسز آموس کا مزید کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کا 44 فی صد رقبہ ناقابل رہائش ہے۔ اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ نے تباہ کاری میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

صہیونی فوج کی بغیر وقفے سے جاری گولہ باری کا نشانہ زیادہ تر خواتین اور بچے بن رہے ہیں۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ بچوں کے وحشیانہ قتل عام نے غزہ کی صورت حال کو مزید خوفناک بنا دیا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال’’یونیسیف‘‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اب تک مارے جانے والے شہریوں میں 33 فی صد بچے شامل ہیں۔ ان کی عمریں پانچ ماہ سے سترہ سال تک ہیں۔

برطانوی اخبار’’انڈی پنڈنٹ‘‘ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری بمباری کے نتیجے میں درجنوں سکول تباہ ہوئے یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیلی اقوام متحدہ کے زیراہتمام چلنے والے سکولوں کی بھی اینٹ سے اینٹ بجارہے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی مانتے ہیں کہ غزہ کے سکول بے گھر ہونے والے لٹے پٹے فلسطینیوں کی پناہ گاہیں ہیں ، ان میں ایک لاکھ چالیس ہزار متاثرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ منظرکشی حماس کے کسی ترجمان کے الفاظ اور دعووں کی بنیادپر نہیں کی جارہی بلکہ اقوام متحدہ اور مغربی ذرائع کے بیانات پر مشتمل ہے۔

ایک طرف امریکی وزیرخارجہ جان کیری مصالحت کاری کی کوششیں کرتے رہے، دوسری طرف امریکہ اسرائیل کو فلسطین میں وحشت و بربریت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ایندھن فراہم کرتا رہا۔ جب یہ سطورلکھی جارہی تھیں، امریکی سینٹ نے اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹم ’آئرن ڈوم‘ کو مزید مستحکم بنانے کے لیے 225 ملین ڈالرز مختص کردئیے۔ جب آپ یہ سطورپڑھ رہے ہوں گے،سینٹ اس فیصلے کی منظوری دے چکی ہوگی۔

یہ رقم ‘آئرن ڈوم’ ڈیفنس میزائل سسٹم کی دوبارہ سپلائی اور انہیں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی آپریشن جاری رہنے کی صورت میں تیار حالت میں رکھنے پر صرف کی جائے گی۔ یاد رہے سنہ2011ء سے آپریشنل کیے جانے والے میزائل ڈیفنس سسٹم میں امریکا نے بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا تھا۔

اسرائیل نے اس بار جب غزہ پر چڑھائی کی تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اسے یہاں زمینی فوجی دستے داخل کرنے کے نتیجے میں پہلی بار بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس سے پہلے ہمیشہ ایسا ہوتا آیاہے کہ اسرائیلی فضائیہ بمباری کرکے فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان سے دوچارکرتی تھی تاہم اس بار نیتن یاہو حکومت نے اس خیال کے تحت زمینی فوج کو بھی فلسطینی میں داخل ہونے کا حکم دیا کہ جب تک حماس کی سرنگوں کو تباہ نہ کیاجائے، تحریک مزاحمت کی کمر توڑی نہیں جاسکے گی۔ لیکن اسرائیل کی یہ چال الٹی پڑ گئی۔ اس بار اسرائیل کو پہلی بارشدیدجانی ومالی نقصان کا سامنا کرناپڑا۔

بالخصوص اسرائیلی جارحیت کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں سے اسرائیلی معیشت اور صنعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی ریڈیو نے حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے بتایاہے کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں صہیونی صنعت کے شعبے کو 875 ملین شیکل یعنی 250 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اسرائیل کے عبرانی ریڈیو نے رپورٹ میں غزہ کی پٹی پر حملے کے نتائج اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کے زیادہ تر کارخانے وسطی اور جنوبی غزہ کے قریب مقبوضہ فلسطینی شہروں میں واقع ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے جنگ کے پہلے روز سے ہونے والے حملوں میں صنعت کے شعبے کو غیرمعمولی نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی شعبے میں سب سے زیادہ منفی اثرات ملٹری صنعت پر پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت اور فوج سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

اسی طرح مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں نے اسرائیلی ائیرپورٹ ویران کردئیے، امریکہ سمیت پوری دنیا نے اپنی فضائی کمپنیوں کو اسرائیل کا رخ نہ کرنے کی ہدایت کردی۔ اسرائیل کو سیاحت کے شعبے میں غیرمعمولی نقصان کا سامناکرناپڑا۔ اس شدید نقصان کے سبب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکی حکام سے باربار رابطہ کرکے جنگ بندی کرانے کی دہائی دیتے رہے۔گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ نیتن یاہو سے دن میں پانچ بار فون پر بات کرتے ہیں اور انہوں نے ان فون کالز میں ہی ان (کیری) سے جنگ بندی کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ یادرہے کہ اسرائیل ایسی جنگ بندی چاہتاہے جس میں صرف حماس کے ہاتھ باندھ دئیے جائیں، صہیونی قیادت جو چاہے کرتی رہے۔

حماس ایسی جنگ بندی کو مسلسل مسترد کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت کا کہنا ہے کہ حماس صرف انہی معاہدوں پر متفق ہو گی جن کی اسرائیل پابندی کرے گا۔ حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے ایک بیان میں کہا ’’اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں ہماری نئی نسل جانیں گنوا رہی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اب کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کو توڑنے کا مقصد ہماری زمین اور معصوم لوگوں کے نشانہ بنانا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیرانصاف اور سینئرصہیونی خاتون سیاست دان زیپی لیونی نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملے کے بعد اسرائیل مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک بیان میں مسز لیونی کا کہنا تھا کہ موجودہ سنگین حالات میں ہمیں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے۔ اسرائیلی وزیر سیاحت عوزی لانڈو نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ان کے بقول:’’ ہم نے غزہ کی پٹی میں ایک اسٹرٹیجک معرکہ کھو دیا ہے‘‘۔ عبرانی اخبار میں شائع ہونے والے لانڈو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی مدمقابل کو ڈرانے کی صلاحیت میں ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی ہے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملے کئے لیکن وہ حماس کو مفلوج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

اسرائیلی وزیر سیاحت کے بقول اب فوج حماس کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی میں پس و پیش کر رہی ہے۔انھوں نے اس قدربڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں پر گہرے صدمے کا اظہارکیا۔ یادرہے کہ تادم تحریر اسرائیلی فوج نے اعتراف کیاہے کہ اس کے 66فوجی حماس سے لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں جبکہ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس نے 150سے زائد ہلاک کردئیے ہیں۔اسرائیلی وزیرسیاحت کا کہناہے کہ اسرائیل کی مسلسل ناکامیاں اس کی کمزوریوں کو آشکار کردیں گی، اس کے سبب اسرائیل مخالف تنظیموں کو مستقبل میں اسرائیل پر مزید حملے کرنے کا حوصلہ ملے گا۔

حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو فلسطینی مزاحمت کی ثابت قدمی کی وجہ سے شدید مشکل میں پڑ گئے ہیں۔حماس کی پولیٹیکل بیورو کے رکن خلیل الحیاء کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے پاس ایک ہی انتخاب ہے کہ وہ تحریکِ مزاحمت کی شرائط کو مان لے۔اس موقع پر حماس کے سینئر رہنما محمود الزھار نے کہا کہ فلسطینی عوام جلد ہی تحریکِ مزاحمت کی فتح پر خوشیاں منائے گی۔تحریک حماس کے ایک ترجمان فوزی برھوم کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ایک ناکام جنگ کے بعد خطے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کاوش میں اپنی فوج کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت غزہ پرجارحیت کرکے پچھتابھی رہی ہے لیکن اپنی ’’ غلطی‘‘ کو درست ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف حربے اختیارکررہی ہے۔ وہ غزہ میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کو چھپارہی ہے، اسرائیلی میڈیا پر مکمل پابندی ہے کہ وہ صرف اسرائیلی فوج کی جاری کردہ خبر ہی نشر کرے گی۔ دوسری طرف اسرائیلی میڈیا میں ایسے سروے شائع اور نشر کررہاہے جن میںغزہ پر جارحیت کے فیصلے کی زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت ظاہر کی جارہی ہے۔

کہیں73فیصد اور کہیں85 فیصد۔ مقصد صرف ایک ہے، ملک میں یہ سوچ نہ پنپے کہ ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جارحیت اسرائیل کے گلے پڑگئی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ برسوں پہلے حماس کے بانی سربراہ شیخ احمد یاسین شہید نے کہاتھا کہ 2025ء تک اسرائیل دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ اگریہ بات صرف شیخ احمد یاسین شہید ہی کی کہی ہوتی تو سوچاجاسکتاتھا کہ شاید وہ اپنے کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے اور انھیں ایک بڑی لڑائی کے لئے تیارکررہے ہوں لیکن گزشتہ دنوں امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں بھی بعینہٖ یہی بات لکھی گئی ہے۔

صہیونی ریاست کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کی تیار کردہ رپورٹ ان دنوں پھر زیربحث ہے، جس میں کہاگیاتھا کہ 2025ء میں دنیا کے نقشے میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہیں ہوگی۔ مقبوضہ فلسطین میں لا کر آباد کیے گئے لاکھوں یہودی ان ممالک کی طرف لوٹ جائیں گے جہاں سے آکر وہ یہاں آباد ہوئے تھے۔ افریقا کے پانچ لاکھ یہودی اپنے ملکوں اور یورپ، روس اور دوسرے ممالک سے لائے گئے دس لاکھ یہودی واپس اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں گے۔

رپورٹ کی تیاری میں امریکا کے 16 انٹیلی جنس ادارں نے حصہ لیا اور طویل بحث اور تجزیے کے بعد ’’مابعد اسرائیل مشرق وسطیٰ کی تیاری‘‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلے دس سال میں مشرق وسطیٰ میں موجود یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پڑوسی عرب ملکوں بالخصوص مصر میں اسلام پسندوں کے عروج نے اسرائیل میں موجود یہودیوں کو سخت تشویش اور خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

یہودی اپنے اور بچوں کے مستقبل کے حوالے سے سخت فکرمند ہیں۔ یہی فکر انہیں واپس اپنے ملکوں کی طرف پلٹنے پر مجبور کر رہی ہے۔اسرائیل کے خاتمے کی پیش گوئی میں بتایا گیا ہے کہ لمحہ موجود میں یہودی آباد کاروں میں شرح ولادت کم ترین سطح پر آگئی ہے جبکہ فلسطینیوں کے ہاں افزائش آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل میں مقیم 5 لاکھ یہودی آباد کاروں کے پاس امریکی پاسپورٹ موجود ہیں، جن کے پاس امریکی پاسپورٹ نہیں وہ یورپی ممالک کے پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کار اسرائیل کے خاتمے کے بعد اپنے لیے کوئی الگ مملکت قائم کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں اقلیتیوں کے طور پر رہنے کو ترجیح دیں گے۔

اسرائیل ایک عشرہ پہلے والی حالت میں نہیں ہے۔ تب غیرمسلم دنیا میں کہیںاسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا تھا لیکن آج امریکہ، یورپ سمیت تمام مسلم وغیرمسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہاہے۔ اسرائیلی جارحیت کی سب سے پُر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کی ہے۔ سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔

انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کے لیے ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی ہے۔برازیل کی خاتون صدر ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ پورے خطے میں میکسیکو سے لے کر چلی تک فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ ریگنالڈو ناصر کے مطابق اس مرتبہ عرب ملکوں کی نسبت یورپ اور لاطینی امریکا میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے زیادہ بڑے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔