- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- بورڈ کا قابلِ ستائش اقدام؛ بےسہارا و یتیم بچوں کو میچ دیکھانے کی دعوت
- امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرمناک قرار دیدیا
- پاکستان کی مکئی کی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ
- ایلیٹ فورس کا ہیڈ کانسٹیبل گرفتار، پونے دو کلو چرس برآمد
- لیجنڈز کرکٹ لیگ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آگئی
- انجرڈ رضوان قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہوسکے
- آئی پی ایل، چھوٹی باؤنڈریز نے ریکارڈز کا انبار لگا دیئے
- اسٹاک ایکسچینج؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور
- شاداب کو ٹیم کے اسٹرائیک ریٹ کی فکر ستانے لگی
- لکی مروت؛ شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق
- اٹلی: آدھی رات کو آئسکریم کھانے پر پابندی کا بِل پیش
- ملک بھر میں مکمل پنک مون کا نظارہ
- چیمپئیز ٹرافی 2025؛ بھارتی میڈیا پاکستان مخالف مخالف مہم چلانے میں سرگرم
- عبداللہ غازی مزار کے پاس تیز رفتار کار فٹ پاتھ پر سوئے افراد پر چڑھ دوڑی
- ایپل کا آن لائن ایونٹ کے انعقاد کا اعلان
- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال
ملک کی سیاسی صورت حال خاصی سنگین ہو چکی ہے‘ حکومت اور احتجاجی پارٹیاں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے مارچ کو روکنے کے لیے کیے گئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات نے صورت حال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ حکومت اور احتجاجی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کی بھی کوئی راہ نہیں نکل رہی جس کے باعث سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے جو ملک اور موجودہ نظام کے لیے اچھا شگن نہیں ہے‘ حکومت اگر 14 اگست کے روز ہونے والے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچ کو نہ روکتی تو شاید یہ حالات نہ ہوتے۔
ماضی میں بھی احتجاج اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں جو پرامن انداز میں اختتام پذیر ہوئے‘ عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا احتجاج اور دھرنا پرامن ہو گا تو پھر زیادہ بہتر راستہ یہ ہوتا کہ ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ حفاظتی اقدامات کی نوعیت پر بات چیت ہوتی‘ حکومت اور اپوزیشن مل کر حفاظتی اقدامات پر متفق ہوتے تو کوئی ہلچل پیدا نہیں ہونی تھی‘ شہروں میں کنٹیرز کھڑے کرنے اور طاہر القادری کی رہائش کو سیل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں فریقین کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے‘ اگر خدانخواستہ تصادم ہوا تو یہ المیہ ہوگا۔
ادھر سیاسی بحران کو ختم کرانے کے لیے جو سیاسی جماعتیں کوششیں کر رہی ہیں‘ ان کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ حکومت معاملات کو حل کرنے میں جتنی تاخیر کرتی جائے گی‘ معاملات اتنے ہی بگڑتے جائیں گے۔ اگر حکومت چند ماہ پہلے ہی تحریک انصاف کے قائد کے مطالبات پر غور کرتی اور ان سے مذاکرات کر کے ان کے تحفظات دورکر دیتی اور اسی طرح طاہر القادری سے بھی مذاکرات کیے جاتے تو شاید یہ حالات پیدا نہ ہوتے جو اب پیدا ہو چکے ہیں۔ بہر حال ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات کو افہام و تفہیم اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر طے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس میں موجودہ جمہوری نظام کی بقا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔