بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال

ایڈیٹوریل  جمعـء 8 اگست 2014
ماضی میں بھی احتجاج اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں جو پرامن انداز میں اختتام پذیر ہوئے۔ فوٹو : فائل

ماضی میں بھی احتجاج اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں جو پرامن انداز میں اختتام پذیر ہوئے۔ فوٹو : فائل

ملک کی سیاسی صورت حال خاصی سنگین ہو چکی ہے‘ حکومت اور احتجاجی پارٹیاں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے مارچ کو روکنے کے لیے کیے گئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات نے صورت حال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ حکومت اور احتجاجی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کی بھی کوئی راہ نہیں نکل رہی جس کے باعث سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے جو ملک اور موجودہ نظام کے لیے اچھا شگن نہیں ہے‘ حکومت اگر 14 اگست کے روز ہونے والے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچ کو نہ روکتی تو شاید یہ حالات نہ ہوتے۔

ماضی میں بھی احتجاج اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں جو پرامن انداز میں اختتام پذیر ہوئے‘ عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا احتجاج اور دھرنا پرامن ہو گا تو پھر زیادہ بہتر راستہ یہ ہوتا کہ ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ حفاظتی اقدامات کی نوعیت پر بات چیت ہوتی‘ حکومت اور اپوزیشن مل کر حفاظتی اقدامات پر متفق ہوتے تو کوئی ہلچل پیدا نہیں ہونی تھی‘ شہروں میں کنٹیرز کھڑے کرنے اور طاہر القادری کی رہائش کو سیل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں فریقین کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے‘ اگر خدانخواستہ تصادم ہوا تو یہ المیہ ہوگا۔

ادھر سیاسی بحران کو ختم کرانے کے لیے جو سیاسی جماعتیں کوششیں کر رہی ہیں‘ ان کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ حکومت معاملات کو حل کرنے میں جتنی تاخیر کرتی جائے گی‘ معاملات اتنے ہی بگڑتے جائیں گے۔ اگر حکومت چند ماہ پہلے ہی تحریک انصاف کے قائد کے مطالبات پر غور کرتی اور ان سے مذاکرات کر کے ان کے تحفظات دورکر دیتی اور اسی طرح طاہر القادری سے بھی مذاکرات کیے جاتے تو شاید یہ حالات پیدا نہ ہوتے جو اب پیدا ہو چکے ہیں۔ بہر حال ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات کو افہام و تفہیم اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر طے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس میں موجودہ جمہوری نظام کی بقا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔