افغانستان کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی

ایڈیٹوریل  جمعـء 8 اگست 2014
پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحد پر بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے.   فوٹو: فائل

پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحد پر بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے. فوٹو: فائل

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کے لیے لگائے جانے والے مسلسل الزامات کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے عزم پر اثر انداز ہونے والے کسی بھی بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، دہشت گردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے جو پورے خطے کو نقصان پہنچا رہا ہے، آپریشن ضرب عضب پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف بلاتفریق و امتیاز جنگ کے عزم کا واضح عکاس ہے۔ انھوں نے لائن آف کنٹرول پر فوجی کارروائی کے حوالے سے بھارتی آرمی چیف کے دھمکی آمیز بیان کو غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ  بھارتی حکومت کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے ۔

پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت دہشت گردی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر کوششیں کرنے کی پیش کش کیاور واضح کیا کہ دہشت گرد دونوں ممالک کے دشمن ہیں لہٰذا اس خطے کو پرامن بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ تنہا کوشش کرنے کے بجائے مل کر کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔ مگر افغانستان نے اس مثبت تجویز کا مناسب جواب دینے کے بجائے کسی بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے کے بعد پاکستان کے خلاف الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان پر واضح کیا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے لہٰذا وہ دوسرے ملک میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کیسے کر سکتا ہے۔افغانستان کے اس منفی روئیے کے باعث دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا اور وہ مسلسل خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے۔وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور وہ ہمسایہ ممالک کے تعاون سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے۔

بظاہر تو افغانستان نے پاکستان کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا مگر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا اس نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانستان پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا جس کا خمیازہ وہ اپنے ملک میں رونما ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے ملا فضل اللہ کی افغانستان موجودگی کے پاکستانی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر الزام عاید کیا ہے کہ پاکستان اب بھی افغانستان میں براہ راست دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دے رہا ہے۔

ایک انٹرویو میں صدارتی ترجمان نے ہرزہ سرائی کی کہ افغانستان میں تشدد کی تازہ لہر کی کمان اور کنٹرول پاکستان میں ہے، پڑوسی ملک گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں بڑی تعداد میں نیٹو اور افغان فورسز موجود ہیں‘ نیٹو فورسز کے پاس جدید ترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی بھی ہے لہٰذا وہاں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنا نیٹو اور افغان فورسز کی ذمے داری ہے مگر وہ اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے دہشت گردی کے کسی واقعے کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دیتے ہیں۔ اب بھی اگر افغان حکومت پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرلے تو ممکن ہے کہ وہ اس مسئلے پر بہت جلد قابو پانے میں کامیاب ہو جائے۔

پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے جس میں اس کی بہادر افواج کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس آپریشن کے باعث بہت سے دہشت گرد افغانستان فرار ہو گئے ہیں‘ انھیں روکنا نیٹو اور افغان فورسز کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ دونوں فورسز اپنی ذمے داری بخوبی ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہ کیا جا سکے۔ ملا فضل اللہ ایک عرصے سے افغانستان میں مقیم ہے مگر پاکستان کے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود افغانستان حکومت اسے گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

پاکستان کو اپنی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحد پر بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود کنٹرول لائن پر صورت حال کبھی بہتر نہیں ہو سکی، وہاں فائرنگ کے واقعات کسی بھی وقت شروع ہو جاتے ہیں جس سے پورے خطے میں کشیدگی پھیل جاتی ہے۔ بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے آتے ہی پاکستان کو دھمکی دے دی ہے کہ کسی بھی واقعے کا سخت اور فوری جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود یہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ بدھ کو شمالی وزیرستان میں ایک بار پھر ڈرون حملہ ہوا، پاکستان نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

پاکستان کے مشرقی اور مغربی ہمسایہ ممالک کو بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے لہٰذا وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دبائو بڑھانے کے لیے پاکستان پر مختلف الزامات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک پاکستان اندرونی طور پر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر لیتا اس کے لیے سرحد پار ہونے والے پراپیگنڈا سے نمٹنا مشکل ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان اور بھارت ،پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ ترک کر کے خطے کو پرامن بنانے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ورنہ یہ خطہ دہشت گردی کی آگ میں یونہی جھلستا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔