فلم کانام ہے ،کہاں سے کہاں تک ۔آواز لتا منگیشکرکی ہے ، ابھی نیتری کا نام مدھوبالا ہے ، بول حسرت ارمان پوری کے ہیں اورموسیقی پولیس بینڈ نے ترتیب دی ہے، سیچوئشن ایک جیل کا دروازہ ہے … آواز آسمان سے آرہی ہے یعنی آکاش والی
نہ ہنسو ہم پہ زمانے کے ہیں ٹھکرائے ہوئے
در بہ در پھرتے ہیں تقدیر کے بہکائے ہوئے
جب آواز لتا کی ہو اوراداکاری مدھوبالا کی ہو تو ہنسی سے بھی رونے کی آواز آتی ہے اورقہقہہ بھی چیخ بن جاتا ہے چنانچہ اس گیت کو بھی سن کر اوپر اٹک پل پر ٹریفک جام ہوگیا اورنیچے دریا پانی پانی ہورہا ہے
کیابتائیں تمہیں کل ہم بھی چمن والے تھے
یہ نہ پوچھو کہ اس ویرانے میں کیوں آئے ہوئے ہیں
بیچاری مدھوبالا کو ذرا غور سے دیکھیے ظالمہ نے چہرے پر وہ تاثرات سجائے ہوئے ہیں جیسے کسی جادو گر نے غم اوردرد دونوں کو ملا کر اورآنسوؤں کو گوندھ کرچہرہ بنایا ہوا ہو اورپھر اوپر سے یہ اعتراف شکست کہ
بات کل کی ہے کہ پھولوں کو مسل دیتے تو
آج کانٹوں کو سینے سے لپٹائے ہوئے
ہیلی کاپٹر سے ہیں قید خانے میں ٹپکائے ہو
آخری شعر قطعی مختلف ہے اس میں بہت سارے سبز اورنیلے پیلے باغ لہلہا رہے ہیں
وہی بوڑھی ضعیف اورلڑکھڑاتی ہوئی بوڑھی امید جو پنڈورا کے بکس سے آخر میں نکلی تھی
ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوں گی
اسی امید سے ہم دل کو بہلائے ہوئے
قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے کسی کو بہت جلد مکافات عمل سے گزرنا پڑجاتا ہے اورکسی کو سیاستدانوں کی طرح کافی لمبی مدت مل جاتی ہے ۔
اب جس مدھوبالا کاذکر ہم کر رہے ہیں اورجو آج کل یہی گانا بڑی دلسوزی سے گارہی ہے، اس کے اعمال کی فہرست اتنی لمبی تو نہیں ہے لیکن اس میں بعض اعمال ایسے ہیں جو وزن میں بہت بھاری ہیں ۔
مثلاً دوسروں میں سے اکثر جو کچھ بیچتے رہے ہیں وہ محض کہنے سننے کی حد تک ہوتا ہے، کسی نے روٹی کپڑا مکان بیچا ،کسی نے سوشلزم بیچا، کسی نے اسلامی نظام سجایا، شریعت محمدی ، نظام مصطفیٰ، فلاحی مملکت ،حقیقی جمہوریت وغیرہ وغیرہ۔
لیکن ان صاحب نے توحد کردی اس مقدس پاکیزہ اوربابرکت چیزکے نام لے لے کر سیاسی کھلواڑ کیا جو دنیا میں پہلی بار صرف ایک مرتبہ ظہورپذیرہوچکی ہیں جن کی مثال نہ کبھی پہلے تھی، نہ اب ہے نہ پھر کبھی ہوسکتی ہے ، ریاست مدینہ ،جس پر دل نثار ہوناچاہیے ، وہ جو دوعالم کی سب سے پاک ومطہرہستی تھی اس پر کوڑے پھینکے گئے تھے، ہرطرح کی ایذائیں دی گئی تھیں جن پر زندگی اتنی تنگ کردی گئی کہ انھیں اپنا آبائی اورجدی پشتی وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور وہاں بھی چھین سے نہیں رہنے دیا گیا ، پھر آزمائش کی گھڑیاں گزرگئیں اور وہ ریاست وجود میں آگئی ۔ اس کے بعد بھی مظالم کا سلسلہ چلتا رہا ۔ وہ ریاست جس کے قیام میں کتنا مقدس خون بہایا گیا ، یہ ہرکسی کو معلوم ہے، چارخلفائے راشدہ میں صرف ایک حضرت ابوبکر صدیق قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے تھے، باقی تین کاخون بہایا گیا اورپھر اس عظیم ہستی کے جگر گوشوں پر جگر تراش مظالم ۔
اوریہاں ایک شخص اٹھتا ہے اوراس مثالی ریاست کا نام لے لے کر اپنا چورن گلی کوچوں میں بیچنے لگا ، نہ کسی کو ذرا سی شرم آئی نہ حیا، اتنی دیدہ دلیری کی توقع تو کسی غیر سے بھی نہیں ہوسکتی ۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہٹا دیجیے تو ان کے اعمال ان لوگوں جیسے تھے جن کے مونہوں سے شراب کے بھبھکے چار چار گزدورتک پہنچتے تھے جن کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ کم ازکم ظاہری حلیہ تو تھوڑا سا بدل دیں، کس دھڑلے سے ریاست مدینہ ، ریاست مدینہ اورایک دوسرے کو صادق وامین کہنے لگے ، سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کوئی انسان اتنا ڈھیٹ اوراتنا بے شرم بھی ہوسکتا ہے کہ خود کو وہ ہستیاں سمجھے اورقراردے جن کے خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں۔
مذہب کے نام پر جو کھلواڑ کیے جارہے ہیں جو توہین وتضحیک کی جارہی ہے جس بے دردی ،بے شرمی اوردھڑلے سے سودے بیچے جارہے ہیں ان کاکچھ تو’’بدلہ‘‘ ملناچاہیے اوروہ مل رہا ہے یہ جو ہمارے ارد گرد ہورہا ہے یہ کیا ہے ایک سزا ہی تو ہے ۔
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
’’مارنا‘‘ تو اس ملک میں ابتداء ہی سے ’’روا‘‘ تھا اورہے
ہمیں اکثر محترمہ تہمینہ دولتانہ کی وہ بات یاد آتی ہے کہ معلوم نہیں ہم سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ جس کی پاداش میں ہم پر کرپٹ سیاستدان کو مسلط کیاگیا، صرف کرپٹ سیاستدان ہی کیا ؟ آج تک جو بھی ہم پر مسلط کیاجاتا رہا ہے وہ اس گناہ کی پاداش میں ہے جو ستتر سال بلکہ ڈیڑھ صدی سے کیے جارہے ہیں ، اور مذہب کو ہروقت ہرجگہ ہرشکل میں بیچ رہے ہیں اوراب ریاست مدینہ کو بھی بیچنے لگے ۔ اورپھر بھی کہتے ہیں ، ہم سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے ۔