جمہوریت میں رویہ سب سے اہم ہے

غلام محی الدین  ہفتہ 9 اگست 2014
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

امریکا کی تاریخ میں صرف ایک صدر ایسا گزرا ہے جسے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ وہ عہدہ جسے ملک کا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ قرار پانے کا امتیاز حاصل ہے۔ یہ امریکا کے صدر رچرڈ نکسن تھے۔ صدارت چھوڑنے کی وجہ ایک ایسا تنازع بنا جس میں صدر اور ان کے قریبی ساتھیوں پر الزام تھا کہ انھوں نے مخالف جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں ایسے آلات نصب کرائے جن کی مدد سے وہاں ہونے والی بات چیت کو ریکارڈ کر کے صدر تک پہنچایا جاتا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی میں واقع واٹر گیٹ آفس کمپلیکس ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کا ٹھکانہ تھا۔ اس نسبت سے اسے واٹر گیٹ اسکینڈل کا نام دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نکسن انتظامیہ کا یہ مخصوص گروہ ہر اس شخص کی جاسوسی کر رہا تھا جس پر صدر کو مکمل اعتماد نہیں تھا۔ 17 جون 1972 کو واٹر گیٹ کمپلیکس میں نقب زنی کی واردات کے نتیجے میں یہ معاملہ کُھل گیا۔ حالانکہ نقب زنی کی اس واردات کے مقاصد آج تک مکمل طور پر واضح نہیں اور اس پر بہت سی ممکنا وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن ان الزامات پر نکسن اور ان کے ساتھیوں کے رویے نے انھیں مسائل کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔

نکسن انتظامیہ نے پہلے تو اس معاملے میں اپنے ممکنا کردار کی پردہ پوشی کی حکمت عملی اختیار کی۔ سازش کے بارے میں انکشافات سامنے آنے لگے تو امریکی کانگریس نے اس کی تحقیقات شروع کر دیں۔ اس کے ردعمل میں نکسن انتظامیہ نے تحقیقات کی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس سے آئینی بحران پیدا ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر نکسن کے قریبی ساتھیوں نے ایف بی آئی کے ذریعے معاملے کی چھان بین کے لیے متحرک گروپوں اور سیاسی شخصیات کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

بات آگے چلی تو نکسن کی جانب سے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے انکشافات بھی سامنے آنے لگے جس کے نتیجے میں اس بات کا پختہ امکان پیدا ہو گیا کہ صدر کو مواخذہ کا سامنا کرنا ہو گا۔ جب بچائو کی کوئی صورت نہ رہی تو 9 اگست 1974 کو نکسن کے  عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ جولائی1973 سابق صدر کے قریبی رفقاء کے خلاف الزامات کی چھان بین کے دوران ان کے اسٹاف کے کچھ ارکان نے سینیٹ کی واٹر گیٹ کمیٹی کے سامنے اپنے حلفیہ بیانوں میں اقرار کیا کہ سابق صدر کے دفتر میں باقاعدہ ایک ٹیپ ریکاڈنگ سسٹم موجود تھا جس کے ذریعے بہت سے لوگوں کی باہمی بات چیت کو ریکارڈ کیا گیا۔

امریکی سپریم کورٹ کے حکم پر صدر کے زیر قبضہ ٹیپس سرکاری تحقیق کاروں کے سپرد کرنا پڑیں۔ صدر کی رخصتی کے بعد نئے صدر جیرالڈ فورڈ نے نکسن کو معافی دیدی۔ بعد میں سابق صدر کو خوش کرنے کے لیے بددیانتی اور اختیارات سے تجاوز کے مرتکب 43 افراد کو جیل کی ہوا کھانا پڑی جن میں اکثریت سرکاری اہلکاروں کی تھی۔

طاقت اور اختیار کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ اس نفسیات کی بنیاد ممکنات اور نا ممکنات کی حدود پر استوار ہوتی ہے۔ ہر فرد کا ممکنات اور نا ممکنات کا دائرہ اس کی قوت اور ذرایع کے طابع ہوتا ہے اب جہاں کسی فرد یا ادارے یا افراد کے مخصوص گروہ کو غیر معمولی قوت اور اختیار حاصل ہو جائے  وہیں اس فہم و ادراک میں ممکنات کی فہرست سکڑنے لگتی ہے اور ممکنات کی حدیں تاحد نظر پھیلتی چلی جاتی ہیں اور یہی اصل امتحان ہوتا ہے۔ جب کوئی نظام وضع کیا جاتا ہے تو اس کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ توازن کا ایسا بندوبست معرض وجود میں لایا جائے جو قوت کے مطلق ارتکاز کا رد کرتا رہے۔

توازن کی اس کوشش میں کسی ریاست کے لوگوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر واٹر گیٹ اسکینڈل کی تاریخ سے امریکی عوام اور میڈیا کی جدوجہد کو خارج کر دیں تو شاید نکسن کے استعفے کی نوبت ہی نہ آتی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کی ناگزیریت کا تو بہت شور ہے لیکن جمہوریت کی روح سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ ہماری تاریخ اس عاقبت نااندیشی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسی ہی ایک اور مثال حالیہ بحران ہے جس میں حکومت کے غیر جمہوری رویے نے ایک معمولی سی بات کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ اب صورت حال حکومت کے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔

حالیہ صورت حال کی سادہ سی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میرے پیسے تم نے چرائے ہیں اور میرا دعویٰ ہے کہ میرے پیسے تمہاری جیب میں ہیں لہٰذا تم تلاشی دو۔ اس دعویٰ کے جواب میں دوسرے شخص نے پستول نکال لی ہے اور کہہ رہا ہے کہ آئو لڑ کر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ ماضی میں ہماری حکومتوں نے اپنے مفادات کے لیے قومی اداروں کو کیسے کیسے استعمال کیا ،کن کن طریقوں سے معاملات پر اثر انداز ہوتے رہے، حتیٰ کہ زور زبردستی سے بھی گریز نہیں کیا۔ لیکن کسی سیاسی تنازع کے حل کے لیے اپنے ہاتھ پیٹ پر باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کیا یہ ممکن نہ تھا کہ حکومت خود اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے‘ اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے پی ٹی آئی کے بتائے چار حلقوں کی چھان بین کروا دیتی۔ لیکن حکومتی ترجمانوں کا رویہ ایسا رہا جیسے غیر مطمئن سیاسی جماعت کے احتجاج اور بے قراری کا مزہ لے رہے ہیں۔ جمہوریت کی اصل روح سیاسی قوتوں کا معقول رویہ ہے۔ جس میں سنجیدگی اور متانت ہوتی ہے۔

انتخابی عذر داریوں کی چھان بین کے حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ ڈالے گئے ووٹ اس لیے محفوظ رکھے جاتے ہیں کہ اعتراض کی صورت میں پڑتال ممکن ہو سکے۔ جن حلقوں میں ووٹوں کے تھیلوں کی سیلیس ٹوٹی ہوئی پائی گئیں اور تھیلوں میں ردی بھری ملی، کیا اس کا کوئی ذمے دار تھا؟ اور کیا کسی کو ذمے دار ٹھہرا کر کارروائی ہوئی؟ جمہوریت کے تسلسل کے لیے جمہوری اقدار کی پاسداری لازم ہے‘ جمہوریت اس وقت تک جڑ نہیں پکڑتی جب تک ہم خود کو جمہوریت کااہل ثابت نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔