گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

جاوید قاضی  ہفتہ 9 اگست 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یقینا ہم بنانا اسٹیٹ نہیں۔ ہم ساؤتھ افریقہ، ہندوستان، برازیل و ارجنٹائن بھی نہیں۔ ہندوستان میں کسی کالم نگار کو اس ڈوری میں الجھنا نہیں ہوتا جو ہم کو لاحق ہے کہ آمر نہ آجائے، کوئی شب خون نہ مارا جائے۔ ہم ابھی بھی اس ڈوری کو سلجھانے کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ بھلا کیوں نہ ہوں جب ایک مرتبہ ڈی فیکٹو طاقتوں کو لت لگ جائے تو پھر ایسی عادتیں جاتی نہیں۔ اس ملک میں اقتدار کا سرچشمہ کون ہے یہ فیصلہ ابھی ہو نہیں سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ سرد جنگ یا آمریتوں نے اقتدار کے حقیقی وارث یعنی عوام کے اس حق کو کمزور کیا۔

خود بنیادی طور پہ عوام کے نام پر آنے والی یعنی Dejure طاقت نے کمزور کیا۔ ورنہ یہ ملک بھی جمہوریت کے ذریعے معرض وجود میں آیا تھا۔ ہندوستان Adult Franchise (بالغ حق رائے دہی) 1952 کے الیکشن میں وجود میں آچکا تھا۔ ہمارے ہاں پہلی مرتبہ اس حق پہ الیکشن کروانے کا کام جنرل یحییٰ نے 1970 میں متعارف کرایا تھا۔ یہ نہیں کہ الیکشن کروانا جمہوری عمل ہے بلکہ کس طریقہ کار کے تحت الیکشن کروائے جارہے ہیں، اس میں کتنی شفافیت موجود ہے، یہ بات تعین کرتی ہے کہ عوام کے حقیقی نمایندے کون ہیں۔

1946 کے الیکشن جس سے یہ ملک معرض وجود میں آیا وہ Adult Franchise کے یونیورسل مانے ہوئے طریقہ کار سے نہیں آیا تھا۔ ووٹ راجاؤں اور مہاراجاؤں کے ہاتھ میں تھا، دہقاں ان کے غلام تھے، ووٹ ان کے خاص لوگوں کو دینے تھے۔ یعنی فی بالغ فرد فی ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کروا کے ان چہ میگوئیوں کو بھی دفن کیا۔

1946 کے الیکشن جس سے (پہلے بھی 1937 کے الیکشن سے پیدا ہوئی اسمبلی کے آخری سالوں میں بھی) شہید سہروردی متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ ہوئے تھے، وہاں راجا اور مہاراجا اتنی بڑی حقیقت نہیں تھے۔ وہاں بھی اتر پردیش کی طرح مسلمانوں کی مڈل کلاس تھی۔ یوں کہیے کہ مسلم لیگ کا ووٹ جو اتر پردیش سے تھا یا بنگال سے تھا وہ ایک لحاظ سے عوام کا ووٹ تھا اگر اس کا مقابلہ سندھ و پنجاب سے کیا جائے۔ بلوچستان نے تو پاکستان کے لیے ووٹ ہی نہیں دیا۔

یہ تو صرف قلات اسمبلی کا فیصلہ تھا۔ سرحد میں تو ریفرنڈم کرایا گیا تھا ورنہ وہاں پاکستان بننے کے بعد بھی کانگریس کی حکومت تھی جب کہ ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا گیا۔ کلدیپ نیئر اس ریفرنڈم پر ایک سوچ رکھتے ہیں کہ کس طرح پٹھانوں کی نفسیات سے کھیل کر باچا خان کو ریفرنڈم میں ہرایا گیا تھا۔ (وہ اپنی سوانح حیات میں اس طرح ہی لکھتے ہیں)

لیاقت علی خان یا اس وقت کی قیادت الیکشن کرواسکی نہ آئین دے سکی۔ نہ صرف یہ بلکہ جو حقیقی ووٹ سے ابھری قیادت ایسٹ پاکستان کی تھی ان کو بھی برہم کر بیٹھے اور پھر جب 1953 کے صوبائی انتخابات ہوئے تو وہ Adult Franchise کے اصول کے تحت نہیں ہوئے۔ پھر یہ کہ ایسٹ پاکستان کو چھوٹا کرنے کے لیے ون یونٹ بھی لگایا گیا۔ سندھ اور پنجاب کے انتخابات پر شہید سہروردی اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ وہ جاگیرداروں کی نمایندگی کرنے والی صوبائی اسمبلی تھی نہ کہ عوام کی حقیقی نمایندہ۔

تو پھر کیوں نہ ہو Defecto پاور پیدا۔ پہلے ایسٹ پاکستان میں سہروردی کو مسلم لیگ میں کمزور کیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین جیسی قیادت کو زبردستی ابھارا گیا۔ پھر یہاں پر مسلم لیگ میں زور تھا ہی نہیں، پاکستان اترپردیش کے ووٹ کی طاقت پر بنا۔ بزنجو لکھتے ہیں پہلے پنجاب کی بیوروکریسی غلام محمد یا چوہدری رحمت کو اقتدار میں شراکت دینی پڑی، پھر بالآخر فوج کے سربراہ ایوب خان کو وزیر دفاع کی حیثیت میں کابینہ میں لانا پڑا۔

جو سول قیادت تھی وہ نااہل بھی تھی خود غرض بھی تھی اور سب سے بڑی بات وہ عوام کی حقیقی نمایندہ بھی نہ تھی۔ اور انتخابات Adult Franchise کی بنیاد پر بھی نہ ہوئے تو پھر یہ سوال خود سول قیادت نہ منواسکی کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے۔ اور پھر یوں بھلا کب تک انتظار کرتی غیر جمہوری قیادت۔ انھوں نے بھی کہہ دیا کہ طاقت کا سرچشمہ اس کے پاس ہے جس کے ہاتھ میں شہتیر ہے۔ ایسٹ پاکستان کے لوگ جاگیرداری کو توڑ چکے تھے۔ وہ عوام بہت حد تک سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ وہ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہونے سے ویسٹ پاکستان میں بھی جمہوری قوتوں کو طاقت ملتی تھی۔

پھر ویسٹ پاکستان سے ابھری ہوئی جمہوری قیادت بھٹو کے روپ میں اس طرح اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے بیٹھی ۔ یہ پہلا موقع تھا 1970 کے انتخابات Adult Franchise (بالغ رائے دہی) پر ہوئے۔

انتخابات جتنے شفاف اس زمانے میں ہوئے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور آج تک نہیں ہوئے۔ لیکن پھر ہم نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا بھٹو صاحب کے پاس باقی ماندہ پاکستان کے لوگوں کا مینڈیٹ تھا ، یہ وہ بات ہے جو عطا اللہ مینگل نے کہی تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تھا۔ کیونکہ اس اسمبلی نے 1973 میں پہلی مرتبہ اس ملک کو Consesus Document دیا، یعنی آئین دیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟

وہ کام جو لیاقت علی خان صاحب کے زمانے سے بنگالیوں کے خلاف شروع ہوا، شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمن کی طرح اس مرتبہ باری ولی خان، خیر بخش مری کی آئی، نیپ پر پابندی، شہنشاہ ایران کو خوش کرنے کے لیے بلوچستان کی قوم پرست حکومت کا خاتمہ، کیونکہ وہ ایران کے بلوچوں کے اندر شورش پیدا کرسکتی تھی تو ساتھ سرحد میں بھی مخلوط حکومت ختم۔ اور سب سے بڑی بات بلوچستان کے اندر آپریشن سول قیادت نے کیا۔

1977 کے انتخابات آئے، دھاندلی ہوئی۔ طاقت کا سرچشمہ عوام تھے ہی نہیں، بھٹو صاحب سمجھ بیٹھے کہ دیگر قوتیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وہ تھیں ہی نہیں۔ اب بھٹو صاحب نے خود جمہوری قوتوں کو کمزور کیا۔ تو پھر بھگتو بھی۔ پھر یہ سوال 1990 میں ابھرا۔ بے نظیر جمہوری قوت بن کے ابھری، وہ پاکستان کی تاریخ سے بخوبی واقف تھیں۔ تو اس وقت نواز شریف ان سے اس طرح ٹکرائے جس طرح 70 کی دہائی میں بھٹو شیخ مجیب سے ٹکرائے۔ اب یہاں دھاندلی روایت بن کے ابھری۔ اور آج تک دھاندلی پر کام چل رہا ہے۔ جب تک پاکستان میں شفاف انتخابات نہیں ہوں گے، عوام کے حقیقی نمایندے نہیں آئیں گے، یہ سوال کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ، یہ حل نہیں ہوگا۔

جب تک یہ سوال حل نہیں ہوگا تب تک ڈیفیکٹو پاور آتے رہیں گے اور مضبوط ہوتے رہیں گے۔آج حکمران اقتدار میں شراکت کے اصول کو مانتے ہی نہیں۔ آج اگر لانگ مارچ ہو رہا ہے تو وہ اس لیے کہ ان کے مینڈیٹ پر الزامات ہیں۔

مجھے نہیں لگتا کہ لانگ مارچ سے جمہوریت پٹری سے اتر جائے گی۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جمہوریت لانگ مارچوں سے نہیں لپیٹی جاتی۔ شب خون مارنے والوں کے لیے کوئی بھی دن شگون ہوسکتا ہے۔ پاکستان نہ بنانا اسٹیٹ ہے نہ مصر ہے، نہ یہاں مرسی آسکتا ہے، نہ جنرل سیسی آسکتا ہے۔ نہ عدالتیں مصر کی عدالتوں کی طرح آدھے گھنٹے کے ٹرائل میں پانچ سو لوگوں پر سزائے موت کا فیصلہ صادر کرسکتی ہیں۔ ہم بہت ارتقا کرچکے ہیں اور بہت ارتقا باقی ہے۔ ہم اب پیچھے کی طرف نہیں جا رہے، یہ کہنا کہ زرداری صاحب یا میاں صاحب کی حکومت ہے تو جمہوریت ہے ورنہ نہیں، اس طرح بھی سوچنا صحیح نہیں ہوگا۔ سب کچھ آئین کے دائرے کے اندر ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔