قائد اعظم اور پاکستان

شہلا اعجاز  ہفتہ 9 اگست 2014
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

ہر برس 14 اگست کا دن آتا ہے اورگزر جاتا ہے، قائد اعظم کے مزار اور دیگر قومی حوالے سے مقامات پر صبح ایک مقررہ وقت پر قومی ترانہ بجتا ہے، تالیاں بجتی ہیں، سبز ہلالی پرچم ہوا میں لہرایا جاتا ہے، تقاریر ہوتی ہیں، ریلیاں نکلتی ہیں، ٹی وی چینلز پر سبز ہلالی پرچم کی مناسبت سے اینکرز اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمانان کپڑے زیب تن کرکے وطن کی محبت کے جذبوں کی باتیں کرتے ہیں ۔کسی چینل سے اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں کی صدا ابھرتی ہے تو کہیں سے اے نگار وطن تو سلامت رہے، سنائی دیتا ہے، فوجی جوانوں اور افسروں کی باتیں شہدا کے ورثا کی باتیں سب سنتے ہیں۔ دل ملول ہوتا ہے آنکھیں نم ہوتی ہیں پورے ملک کا ماحول سبز ہلالی پرچم کی محبت میں چور ہوتا ہے۔

اگست کا مہینہ دن پندرہ اگست وقت صبح سویرے۔۔۔۔سڑکوں پر ہوا میں ڈولتی ادھر ادھر ہری جھنڈیاں جوکبھی بڑے بڑے ٹرکوں کے کیچڑ زدہ پہیوں میں روندتی ہیں تو کبھی پھڑپھڑاتے رکشوں کے چھوٹے پہیوں میں الجھتی ہیں، اسکوٹر سواروں کی اپنی ادا بچ کے گزر جانا چاہتے ہیں اور اگر ان کے پہیوں میں اٹک گئی تو گھر سے آفس کے دوران یا کہیں اور تک پیچھا نہیں چھوڑتیں، صرف یہی نہیں سڑکوں پر بڑی شان اور خاصے پیسے صرف کرکے لگائے گئے جھنڈے جو قطار در قطار بجلی کے پولوں پر تانے گئے تھے۔

ٹریفک کے کالے، بدبودار دھوئیں نے سفید جھنڈوں کی شکل ہی بدل دی نہ صرف یہ اگر بارش کی کرم نوازی ساتھ ساتھ ہوگئی تو زمین پر گرے ان جھنڈوں کی ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔ ہماری قوم کی ساری محبت، چاہت اور وطن کا تعلق اگر ان جھنڈیوں اور جھنڈوں کو جگہ جگہ گاڑنے اور لٹکانے سے ہے تو پندرہ اگست تک وہ محبت اتنی مدہم کیسے ہوجاتی ہے جو مٹی اور دھول میں اٹ جاتی ہے کیا ہماری نظر میں اپنے جان سے عزیز قومی جھنڈے کا تقدس صرف 14 اگست تک ہی ہے۔

14 اگست پر ہم ہر سال ہی سنتے آئے ہیں آئیے عہد کریں۔۔۔۔لیکن ہم دوسرے دن ہی تمام عہد و وعدے وفا کیے بغیر ہی دوسری بحث و مباحث میں الجھ جاتے ہیں ہم سب بھول جاتے ہیں کہ گزرے ہوئے کل میں ہم نے کتنے برسوں کی جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل کی تھی اور حالیہ گزرے کل میں ہم نے کتنے بڑے بڑے دعوے کیے تھے عہد کیے تھے، ہر ایک برس میں ہم کتنی ترقی کرتے ہیں کتنا کام کرتے ہیں کہ ہمارا ملک آگے کی جانب گامزن رہے، اس کا حساب کتاب رکھنا مشکل تو نہیں 2003 کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں یا 1995 کے 2013 کے یا 2008 کے۔ بجلی پانی اور مہنگائی کا رونا یکساں نظر آئے گا۔

قائد اعظم پاکستان بننے کے بعد کتنے برس زندہ رہے، 14 اگست 1947 سے گیارہ ستمبر 1948 تک 392 دنوں میں قائد اعظم محمدعلی جناح نے کتنے پروجیکٹس شروع کیے۔ کتنے اہم فیصلے کیے اگر مختصراً مختصراً بھی ان کو قلم بند کیا جائے تو اس کا احاطہ پانچ چھ برسوں کے عمل سے بھی وسیع ہوجائے گا۔ قائد اعظم کے ایک سالہ دور حکومت میں ترقی کے جن امور پر توجہ دی گئی شدید علالت کے باوجود جس طرح آپ نے ذمے داری، دیانت داری اور سوچ سے اپنے ملک کے لیے کام کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے، محمد سلیمان خان لکھتے ہیں:’’آزادی کے وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار صرف ساٹھ میگاواٹ تھی تقسیم سے پہلے بجلی بھارت کے علاقوں سے آتی تھی وہ بھی کاٹ دی گئی۔

لاکھوں مہاجرین کے لیے قافلوں کی آمد کے باوجود کاروان قائد کے سالاروں نے ہمت نہ ہاری اور فروری 1948 کو پاکستان کا پہلا فاضل بجٹ پیش کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا جب کہ بھارت جس نے پاکستان کے اثاثے بھی ہڑپ کرلیے تھے خسارے کے بجٹ کے ساتھ اپنے سابقہ آقاؤں کو دہائی دے رہا تھا۔

پہلا فاضل بجٹ پیش کرنے کے اگلے ماہ مارچ 1948 میں معیشت کی بہتری کے لیے پہلی قومی پالیسی کا اعلان کیا گیا(اس سے دو ہفتے قبل قائد اعظم میانوالی کے دورے میں میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ (کالا باغ ڈیم) کی تعمیر کا واضح اشارہ دے چکے تھے) حکومت نے 500 میگاواٹ کے میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ سندھ میں نارا کینال اور گھوٹکی کینال بنانے اور مشرقی پاکستان میں کرنافلی ہائیڈرو پراجیکٹ بنانے کا اعلان کیا تاکہ بجلی کی ضرورت کے لیے کسی کا دست نگر نہ رہنا پڑے۔

پاکستان کے پہلے فاضل بجٹ اور بہترین قومی معاشی پالیسی کے جواب میں بھارت نے تمام اخلاقی و قانونی اور انٹرنیشنل قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی طرف آنے والی نہروں کا پانی یکم اپریل 1948 کو بند کردیا تاکہ پاکستان کی زراعت کو تباہ کیا جائے۔ قائد اعظم کی فراست نے فی الفور میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ موخر کرکے تین نہروں بی آر بی، مرالہ راوی لینڈ اور بلوکی سلیمانکی لنک کی تعمیر بغیر کسی قرضے گرانٹ یا غیر ملکی ماہرین کے شروع کرائی۔‘‘

ذرا غور کیجیے کہ مارچ سے اپریل تک قائد اعظم نے کتنی سرعت سے فیصلے کیے پہلے ایک فیصلہ میانوالی ہائیڈرو پراجیکٹ کا لیکن بھارت کی شرارت کو دیکھ کر فوری طور پر دوسرے ہی مہینے دوسرا فیصلہ کر ڈالا اس کے لیے نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور نہ ہی چینی یا امریکی ماہرین کا انتظار کیا۔

آپ بیمار تھے آپ جانتے تھے کہ زندگی چند دنوں کی مہمان ہے لیکن آپ نے دن رات کام کیا اور پاکستان کے ہر شعبے میں اہم کام کیے سول سروس کے نوجوان آفیسرز کے لیے اکیڈمی قائم کی، پولیس سروس، اکاؤنٹ سروس، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پے کمیشن بنایا، آپ روزانہ معیشت کے بارے میں رپورٹ پڑھتے، آپ نے پانچ وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس کا کام روزانہ آپ کو معیشت کے بارے میں رپورٹ بنانا اور پیش کرنا، اسٹیٹ بینک کا قیام، رویت ہلال کمیٹی کا قیام، یہاں تک کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس اور خارجہ پالیسی کا قیام آپ کے انتھک کاموں کی تفصیلات میں شامل ہے۔

قائد اعظم بیرونی دنیا سے پاکستان کا رابطہ انتہائی خوشگوار اور باعزت قوم کے انداز میں کرانا چاہتے تھے صرف بیرونی دنیا ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں بھی اتحاد کے لیے کردار ادا کیا۔ امور خارجہ ہو یا امور داخلہ ایک بیمار کمزور انسان 71 برس کی گزرتی عمر میں بھی ایک چاق و چوبند سپاہی کی طرح پاکستان کے ہر شعبے میں اپنی انتھک محنت سے بیج بوتا رہا۔ اس عظیم شخص نے اپنی دولت، اپنی محنت، ذہانت اور دیانت داری سے اپنی زندگی کے آخری392 دن پاکستان کی نذر کیے۔ ذرا سوچیے میرے قائد اگر ان چند سو دنوں میں پاکستان کو اتنا آگے بڑھا سکتے ہیں تو ہم اور ہمارے رہنما پچھلے 67 سالوں میں کیا کچھ کرسکتے تھے، چلیے جوگزر گیا سو گزر گیا آگے کی سوچیے۔ انشاء اللہ ابھی بہت سے 14 اگست بھی آنے ہیں اب انتظار نہ کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔