عافیہ کی داد رسی

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

پروگرام ’’پاکستان رمضان‘‘ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بیٹے احمد اور بیٹی مریم کی درد بھری باتوں نے دل مغموم کردیا، یہ بھی ہماری جرم ضعیفی کی سزا اور غلاموں کے تسلسل کا شاخسانہ ہی ہے کہ امریکا عافیہ صدیقی جیسی معصوم و مظلوم کو واپس کرنے سے انکاری ہے۔ ہم تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری اس عجیب و غریب جنگ کے اتحادی، جس کے شروع کرنے والے پہلے ہی دن سے آج تک ’’دہشت گردی‘‘ کی وضاحت نہ کرسکے اور نہ ہی مشرق و مغرب کی تہذیبیں اور ان کی سرکردہ افراد دہشت گردی کی کسی ’’تعریف‘‘ پر آج تک متفق ہی ہوسکے۔

دختر اسلام ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی ایک باصلاحیت بیٹی ہیں جو پاکستان میں بھڑکائی جانے والی پر اسرار لڑائی کی آگ کا ایندھن بنیں، عافیہ صدیقی کو ان کے بچوں کے ساتھ 30 مارچ 2003 کو FBIکے اہلکاروں نے اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، ان پر بظاہر کوئی الزام بھی عائد نہیں کیا گیا، ان تعذیب کدوں میں بند قیدیوں نے ایک خاتون پر ظالمانہ تشدد کی خبریں آزاد دنیا تک پہنچائیں۔

ایک برطانوی نو مسلم صحافی مریم ایون ریڈلے نے اسلام آباد آکر جولائی 2008 میں پریس کانفرنس کی اور پاکستانی صحافی اور میڈیا کو روتے ہوئے بتایاکہ خدارا اپنی مسلمان بہن اور اس کے معصوم بچوں کو قید سے رہائی دلوائو جو بگرام ایئر بیس میں قید ہے جس کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ قیدی پاکستانی پی ایچ ڈی خاتون ڈاکٹر عافیہ تھیں۔ ایون ریڈلے کے انکشاف کے بعد عافیہ کو امریکا منتقل کردیاگیا۔ جہاں انھیں ایک بار پھر بد ترین ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور انصاف کے نام پر تماشا لگاکر 86 برس کی سزا سنادی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ

’’ڈاکٹر عافیہ کا کسی بھی دہشت گرد گروپ سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا، ڈاکٹر عافیہ کا اغوا اور سزا سب غیر قانونی ہیں۔‘‘

مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈمین نے عافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا کہ

’’عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے۔‘‘

متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں لکھا، امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کی جرم بے گناہی کی سزا دیکھ کر چیخ اٹھا اور اس نے کہا:

’’میں ایک مردہ قوم کی بیٹی کو ملنے والی سزا دیکھنے آیا تھا لیکن اب میں انسانیت کی ماں عافیہ صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں۔‘‘

علاوہ ازیں عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ممتاز امریکی شہریوں نے وزیراعظم پاکستان اور امریکی صدر کے نام کھلا خط لکھا ہے۔ متعلقہ امریکی شہریوں نے مکتوب میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پاکستانی شہری اور امریکا میں قانونی حیثیت کی حامل ہیں۔ جن ممتاز شہریوں نے خط لکھا ان میں سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک، سابق امریکی سینیٹر مائک گریول، امریکی کانگریس میں پال فنڈ لے، سنھیا کینی، گامیلا، LOWA اسٹیٹ کے نمایندے ڈاکٹر جان سپو، چیئرمین مسلم عیسائی مفاہمت سارہ فلونڈرس کو ڈائریکٹر انٹرنیشنل ایکشن سینٹر، اسٹیو ڈاؤن ایگزیکٹو ڈائریکٹر سول فریڈم نہلا آل آرائن کوآرڈینیٹر نیشنل لبرٹی، امام مہدی برلے اور دیگر شامل ہیں۔

ان تمام معزز امریکی شہریوں نے کہا ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی وطن سے ہزاروں میل دور باعزت واپسی کے لیے دل کی گہرائیوں سے خواہش رکھتے ہیں اور ان کی بگڑتی ہوئی ذہنی اور جسمانی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں، ان ممتاز شہریوں نے مکتوب میں یاد دہانی کرائی کہ دونوں حکومتوں نے عافیہ کی رہائی کے کئی مواقع ضایع کیے، عافیہ کی رہائی ملالہ یوسف زئی کی حمایت کا سبب بنے گی، ہم اس پر بھی افسردہ ہیں کہ عافیہ کے بچے اور والدہ گزشتہ گیارہ سال سے ماں اور بیٹی کے منتظر ہیں اور اس موقع پر جب دونوں حکومتیں عوام کے درمیان نئے تعلقات کا دور شروع کرنا چاہتی ہیں ۔

عافیہ کی رہائی قانونی فریم ورک میں اس المناک کیس کا ایک مثبت حل فراہم کرے گی اور امریکی تصویر دنیا میں مثبت سوچ کا تصور پیش کرے گی ان تمام ممتاز و معزز امریکی شہریوں نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا کہ

’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ایک دہائی طویل نا انصافیوں پر مبنی قید کا خاتمہ 2014 کے اختتام سے قبل کیا جائے۔‘‘

اسی کے ساتھ ہی ایک اور خوش آیند امر یہ ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے ضمن میں ایک پٹیشن کی وہائٹ ہائوس میں انرولمنٹ کرائی گئی تھی یہ پٹیشن 4جولائی 2014 کو وہائٹ ہائوس میں انرول ہوئی تھی۔ اس پٹیشن میں دنیا بھر سے ایک لاکھ افراد نے سائن کرکے باراک اوباما سے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ان کی والدہ کا سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں سے شکوہ ہے کہ

’’سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ عافیہ صدیقی کی جو بھی آج حالت زار ہے وہ کسی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی حکمرانوں کی بدولت ہے۔‘‘

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ’’عافیہ صدیقی موومنٹ‘‘ کی قیادت کرتے ہوئے ظلم و نا انصافی کے خلاف صف آراء ہیں، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی و مذہبی شخصیات بھی اپنے رد عمل میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صرف احتجاجی بیان ہی دیتے رہے ہیں، موجودہ حکومت کی جانب سے بھی عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کا صرف رسمی و زبانی جمع خرچ سامنے آیا تاہم عملی اقدامات بھی ہوں تو جانیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔