نقصان آپ کو ہی ہونا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 9 اگست 2014

ایک جنگل میں شیر نے جست لگا کر بندرکو دبوچ لیا اوراس سے پوچھا بتائو جنگل کا بادشاہ کون ہے۔ حضور آپ کے سوا اورکون ہوسکتا ہے۔ بندر کے جواب پر شیر نے اسے چھوڑ دیا پھر شیر کو ایک زیبرا نظر آیا۔ شیر نے اسے بھی دبو چ لیا اور اس سے بھی وہی سوال کیا کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے حضور شیر کے سوا جنگل کا بادشاہ کون ہوسکتاہے۔ زیبرا کے اس جواب پر شیر نے اسے بھی چھوڑ دیا پھر شیر کی ملاقات ہاتھی سے ہوئی، شیر نے گرج کر دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کی اور پھر اس سے بھی وہی سوال پوچھا۔ بتائو جنگل کا بادشاہ کون ہے۔ ہاتھی نے جواب دینے کے بجائے شیر کو اپنی سونڈ میں لپیٹا اور اٹھا کر بیس فٹ دور پھینک مارا۔

شیر نے گرنے کے بعد خود کو سنبھالا اور اٹھ کر مخالف سمت میں یہ کہتا ہوا چل دیا جس بے وقوف کو جواب کا ہی نہیں پتا اس سے الجھنا کیسا ۔ یہ ہی کچھ حال حکمرانوں کا بھی ہوا کرتا ہے۔ اقتدار میں آکر فوراً آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر ہر اہم جگہ دھارنا شروع کر دیتے ہیں اور ابتداء میں چھوٹے موٹوں کو دبوچ کر وہی سوال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جواب ظاہر ہے وہی ملتا ہے جو اصلی شیر کو ملا تھا پھر آہستہ آہستہ ان کی ہمت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور پھر ایک روز وہ بھی وہی غلطی کر بیٹھتے ہیں جو جنگل کے شیر نے کی تھی، پہلے وہ انتہائی طاقتور کے سامنے گرجتے ہیں پھر دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو نکلنا چاہیے۔

اصل میں جب آپ پر برا وقت شروع ہوجاتا ہے تو پھر آپ صحیح سوال غلط آدمی سے پو چھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور غلط سوال صحیح آدمی سے پوچھنے لگ جاتے ہیں اور پھر نتیجے پر قسمت کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اس ساری صورتحال میں قصور آپ کا نہیں ہوتا دراصل جب آپ کی دشمنی عقل سے ہوجاتی ہے تو پھر انہونیاں ہی انہونیاں ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور پھر آپ اپنے آپ سے یہ سوال کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جوکچھ میں نے کیا ہے میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی کر سکتا تھا۔

عقل سے دشمنی کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی ظاہری طاقت پر بھروسہ کرنے لگا جاتا ہے ۔ سابق صدر مصر انور سادات کے قتل کے بعد امریکہ کے ٹائم میگزین نے 19 اکتوبر 1981 کو اس واقعے کے بارے میں ایک خصوصی مضمون شایع کیا تھا اس مضمون کا آغاز اس نے نپولین کے ایک قول سے کیا۔نپولین نے اپنے آخری زمانہ میں سوال کیا ’’ کیا تم جانتے ہوکہ دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے ‘‘ اس کے بعد اس نے خود ہی جواب دیا ’’ وہ چیز طاقت کی یہ بے بسی ہے کہ اس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جا سکتا بالاخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کر لیتا ہے‘‘ انور سادات نے مصر میں ہرقسم کی طاقت حاصل کر لی تھی مگر 6 اکتوبر1981 کو وہ عین اس وقت قتل کر دیے گئے جب کہ قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کے ساتھ فتح سوئزکی تقریب منا رہے تھے۔

انور سادات کی عالیشان نشست گاہ میں آنے والے تمام لوگوں کی جانچ مخصوص آلات کے ذریعے کی جا رہی تھی حتیٰ کہ پریڈ میں حصہ لینے والے تمام فوجیوں کی رائفلوں کوکارتوس سے خالی کر دیاگیا تھا مگر انور سادات کی فوج ہی کا ایک آرمی پریڈ سے نکل کر تیز ی سے ڈائس کی طرف آیا اور قبل اس کے حفاظتی عملہ اس کو روکے وہ انور سادات کو اپنی گولی کا نشانہ بنا چکا تھا یہ واقعہ تلوار کے اوپر دماغ کی فتح کا واقعہ تھا۔

غزالی ؒ کہتے ہیں خداوند تعالیٰ نے عقل کو بہت خوب صورت شکل میں پیدا کیا اور اس کو فرمایا جائو۔ وہ چلی گئی پھر حکم ہوا آئو اور وہ آگئی پھر خدا نے عقل سے کہا کہ میں نے تمام دنیا میں کوئی چیز تجھ سے بہتر پیدا نہیں کی تمام مخلوق کو سزا اورجزا تیرے ہی ذریعے سے ہوگی ۔ قدرت جب کچھ کرنے والی ہوتی ہے تو وہ اشارے دیتی ہے آندھی سے پہلے تیز ہوا شروع ہوجاتی ہے آسمان کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوجاتاہے زلزلے سے پہلے اس جگہ سے پرندے اڑ جاتے ہیں ۔بارش سے پہلے گہر ے سیاہ بادل آسمان پر چھاجاتے ہیں جو لوگ ان اشاروں کو سمجھتے ہیں وہ محفوظ پناہ گاہوں اور اپنے اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اگر کسی کی عقل سے دشمنی ہو تو وہ سٹرک یا میدان کے بیچوں بیچ کھڑا رہتا ہے پھر انجام کے بعد اپنے نصیبوں کو رونا شروع کر دیتا ہے۔

آئیں ذرا ہم اپنے ذہنوں پر زور ڈالیں کالج کے زمانے میں کیمسٹری کے استاد لیبارٹر ی میں ایسے ایسے تجر بے کر کے دکھاتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے۔ ان تجربوں کے نتیجے ہمارے لیے حیران کن ہوتے تھے لیکن ہمارے استاد کے لیے وہ ایک عام سی بات تھی کیونکہ انھیںپہلے سے معلوم ہوتا تھا کہ کس محلول کو کس محلول سے ملائیں گے تو کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔ بالکل اسی طرح سیاست ہے یہ بھی قدرت کی طرح کچھ ہونے سے پہلے اشارے دے دیتی ہے اور جو سیاست کے استاد ہیں انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ تبدیلی سے پہلے کون کون سے حالات و واقعات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں ایسا کرتے ہیں کہ ہم خود بھی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے لیے ہمیں تاریخ میں سفر کر نا ہوگا، آپ1958 میں ایوب خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے حالات و واقعات کابغور مطالعہ کرلیں اور جب آپ یحییٰ خان کے اقتدارمیں آنے سے پہلے کے پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کے پھر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے کے اور میاں نوازشریف کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کرلیں تو پھر آپ بھی کچھ کچھ سیاست کے استاد ہونا شروع ہوجائیں گے۔

اس لیے پاکستان کے موجودہ حالات بالکل سیدھے سادے سے ہیں جو کچھ طے ہے وہ ہوکے رہے گا آپ لاکھ برا مانیں لاکھ مچلیں لاکھ اکڑیں جو طے ہے وہ طے ہے۔ایک اور بات اچھی طرح سے ذہن نشین رکھیے گا جو حضرات ڈٹ جائیں جمیں رہیں، طاقت کا استعمال کریں جیسے مشورے دے رہے ہیں وہ حضرات سب سے پہلے خود محفوظ جگہوں کا معائنہ کرتے پھر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سارے سیانے ایک جیسا سو چتے ہیں اور سارے بے وقوف ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہیں ۔اس لیے اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کریں آندھی کے سامنے کھڑے ہونے کا نقصان آپ کو ہی ہونا ہے نہ کہ آندھی کو ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔