- کے الیکٹرک تاجروں کے مسائل ترجیحاً حل کرے، چیئرمین نیپرا
- بجلی کی قیمت میں 2.31 روپے فی یونٹ کمی کی منظوری
- پشاور خودکش دھماکا؛ آئی جی کے پی کا واقعے کی تحقیقات جلد از جلد کرنیکا حکم
- درہ خنجراب پاک چین خصوصی تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا گیا
- کرنٹ اکاؤنٹ میں کمی، مہنگائی شرح سود بڑھانے کی سب سے بری وجہ قرار
- بین الاقوامی پروازوں کے استعمال شدہ پانی میں کورونا وائرس کا انکشاف
- شاہین اور نسیم پاکستان کی ’’گولڈ ڈسٹ‘‘ قرار
- واہ رے تجربہ کارو!
- بھارت میں پہلی بار چھکے کے بغیر ٹی ٹوئنٹی میچ کا انعقاد
- یقین ہے امریکا پاکستان کو تیل کی فراہمی کے معاہدے میں رکاوٹ ڈالے گا، روس
- بلوچستان؛ برف پوش پہاڑوں میں چھپی منشیات فیکٹری سے سیکڑوں کلو چرس برآمد
- شعیب ملک کیریئر کی اننگز جاری رکھنے کیلیے پُرعزم
- پی ایس ایل 8؛ ہیلز راولپنڈی میں میچز کھیلنے کیلیے پُرجوش
- ٹیم ڈائریکٹر کی کرسی پر مکی آرتھر کا نام جگمگائے گا
- تین نوجوان بھائیوں کے قتل کا ملزم گرفتار، ڈکیتی سمیت کئی جرائم کا اعتراف
- نظرانداز کرکٹرز کو امید کی کرن دکھائی دینے لگی
- 4.6 ارب سال قبل آگ کے گولوں نے زمین پر زندگی کی بنیاد رکھی، تحقیق
- پالتو مچھلی نے مالک کے چار ڈالر خرچ کر دیے، کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات بھی جاری کردی
- بھارت نے ناک کی پھوار والی پہلی کووڈ ویکسین بنالی
- قراقرم ایکسپریس کو بھی گرین لائن کی طرز پر اپ گریڈ کرنے کی ہدایت
(میڈیا واچ ڈاگ) - بچے اگر اثاثہ ہیں تو پھر ان پر ظلم کیوں؟

ملک ہوں معاشرے یا افراد ان کو اپنی بنیادی زمہ داری نبھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہے کہ بچوں کا استحصال جسمانی و جنسی زیادتی کی ہر شکل قابل مذمت
ہر پیدا ہونے والا بچہ یہ پیغام دنیا میں لے کر آتا ہے کہ قدرت ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوئی،بچے ایک ایسی یونیورسل سچائی اور پوری انسانیت کا اثاثہ ہیں جن پر توجہ دینا ملکوں، معاشروں اورافراد کا کام ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تشدد اور نظر انداز بھی بچوں کو ہی کیا جاتا ہے۔
مہذب ممالک نے تو اپنے ہاں اس طرح کی قانون سازی کر لی ہے کہ وہاں والدین بھی بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کر سکتے جبکہ تیسری دنیا کے ممالک ابھی اس خوبصورتی سے محروم ہیں۔ بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور خصوصاً ان بچوں کے ساتھ جو معاشرے میں تنہا رہ جاتے ہیں یعنی جن کے والدین کا سایہ ان کے سر سے اٹھ جاتا ہے ایسے یتیم بچوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں ،مجھے پھر مہذب ممالک کی بات کرنی پڑے گی جہاں فرد ریاست کی زمہ داری قرار پاتا ہے اوراس کی تمام ضرورتیں ریاست پوری کرتی ہے ۔وہاں کوئی یتم بچہ تنہا نہیں ہوتا اور نہ کوئی فرد ،ادارہ یا گروہ اس کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے کیونکہ ریاست اس کے ماں باپ کا کردار ادا کرتی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مصر کے ایک ’’یتیم گھر‘‘ کی وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک یتیم خانے کے بچے اور بچیوں پر وہاں کا نگران بہت بری طرح تشدد کر رہا تھا اور بچوں کی چیخیں اس ظالم کے علاوہ سب کو سنائی دے رہی تھیں۔بچوں کی پٹائی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہاں کے بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے اور اِ ن بچوں کا تعلق غزہ سے ہے۔ سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر اس وڈیو کے آنے کے بعد وہاں کی انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے اس یتیم خانے کے مالک کو حراست میں لے کر بچوں کو کسی اور ادارے میں منتقل کر دیا ہے۔
مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جن بچوں کا کوئی نہیں ہوتا وہا ں کی ریاستیں اور معاشرہ آخر کب تک ان کی پرورش میں کوتاہی کا مرتکب کب تک ہوتا رہے گا؟ بچوں کے ساتھ ہونے والا یہ المناک واقعہ صرف مصر کے یتیم خانے میں ہی نہیں ہوا بلکہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں اس طرح کے انسانیت سوز واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔
بھارتی یتیم خانوں میں بچوں پر جنسی تشدد ایک عام سی بات ہے بلکہ بچوں پر جبر کے واقعات کی مناسب تفتیش اور مجرمان کو سزا دینے کے معاملے میں بھارت کا ریکارڈ خاصا خراب ہے۔افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر بچوں کے ساتھ ہونے والے تششدد پر کو ئی خاص توجہ نہیں دی جاتی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دارالحکومت نئی دہلی جیسے بڑے شہر میں کچھ ایسے واقعات سے پردہ اٹھا ہے، جنہوں نے دور دراز کے بڑے شہروں میں بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز میں حالات کی سنگینی سے متعلق خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
بچوں پر تشدد کے حوالے سے شورش زدہ اسلامی ممالک میں تو صورت حال اور بھی خراب ہے عراق، ایران ،شام ،فلسطین، لیبیا ،افغانستان، جہاں جہاں جنگیں ہو رہی ہیں وہاں بچوں کا پرسان حال ہی کوئی نہیں۔بچوں پر تشدد کے حوالے سے ہمارئے اپنے وطن کے شہریوں اور ریاستی اداروں کا کردار بھی کوئی قابل تحسین نہیں ہے بلکہ کئی معاملات میں تو شرمناک حد تک برا ہے۔
ملک ہوں معاشرے یا افراد ان کو اپنی بنیادی زمہ داری نبھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہے کہ بچوں کا استحصال جسمانی و جنسی زیادتی کی ہر شکل قابل مذمت ہونے کے ساتھ قابل سزا بھی بنانی چاہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔