(پاکستان ایک نظر میں) - میں صحافی ہوں، کوئی میری نوکری کا بھی تو سوچے!

عاقب علی  ہفتہ 9 اگست 2014
 کیا واقعی جمہوری نظام لپیٹ دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوگیا تو مجھ جیسے ہزاروں صحافیوں کی نوکری کا کیا ہوگا؟۔ فوٹو: فائل

کیا واقعی جمہوری نظام لپیٹ دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوگیا تو مجھ جیسے ہزاروں صحافیوں کی نوکری کا کیا ہوگا؟۔ فوٹو: فائل

اگر لوگ چاہتے ہیں آزادی مارچ ہوتو اسے ہونا چاہیے،یوم شہداء انقلاب اور انقلاب مارچ ہو تو ہونا چاہیے بس خیال یہ رہے کہ  لاہور غزہ اور کربلا نہ بنےاوراس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف ، عمران خان ،طاہر القادری اور پاک فوج ملکی مسائل سے بالکل بے پروا ہوجائیں۔اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انتخابی نظام میں خامیاں ہیں، ہر بار کرپٹ ٹولہ یا میرے عزیز ہم وطنو اقتدار کا حصہ بنتے رہے ہیں،اور ان دونوں کی سیاسی جوڑ توڑ ، مک مکاؤ اور چل چلاؤ کی پالیسی نے پاکستان کو مسائلستان بنادیا ہے ۔

بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کو کل تک پوری قوم رو رہی تھی ،دہشتگردی کا ناسور بھی جڑ پکڑا گیا اس کیخلا ف بار بار آپریشن ہوا ،کس کی ایما پر ہوا یہ آج کا موضوع نہیں،اب 20لاکھ آئی ڈی پیز ،امن و امان، بے روزگاری ، مہنگائی کئی اور ایشوز ہیں جنہیں حل کئے بغیر انتخابی نظام درست کرنا، دھاندلی روکنا، انقلاب لانا، فوج کو بلانا اور ظلم کی دہائیاں دینا سب بے کار ہے۔

اب اِس بات کو خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی ۔۔۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میرا تعلق بھی صحافی برادری سے ہی ہے۔ میرے ایک اندر بھی  ایک بیماری ہے کہ معاملات کی پیش گوئی کرتا رہتا ہوں کبھی ٹھیک ثابت ہوجاتا ہوں تو کبھی ناکام۔ مگر 10 اگست کو یوم شہدا اور 14 اگست کو آزادی مارچ میں کیا ہوگا اِس بارے میں رائے دیتے ہوئے کترارہا ہوں کہ ناجانے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ دفتر میں بیٹھا کام کررہا تھا تو اطلاع آئی کہ اگلے 2 ہفتے تک ہفتہ وار چھٹیاں ختم ہوگئی ہیں کیونکہ حالات کو کچھ علم نہیں ہے۔اگر چہ یہ خبر ہم صحافیوں کے لیے تھی مگر اِس کی اطلاع عام عوام تک بھی پہنچ گئی بالکل اِسی طرح جس طرح آگ جنگل میں پھیلتی ہے۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔ لوگوں کی فون کالز کا ایک تانتا بندھ گیا کہ کیا واقعی چھٹیاں بند ہوگئی ہیں ، کیا واقعی مارشل لا لگ رہا ہے؟ سوالوں کا ایک ریوڑ تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

مگر یہ تو وہ سوال تھے جو عوام کی جانب سے اُٹھائے جارہے تھے، مگر اِنہیں سوالوں کے درمیان ایک سوال نے میرے ذہن میں بھی کروٹ لی کہ کیا واقعی جمہوری نظام لپیٹ دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوگیا تو مجھ جیسے ہزاروں صحافیوں کی نوکری کا کیا ہوگا؟ کیونکہ اب تک کے تجربات سے یہی معلوم چلا ہے کہ جب بھی میرے عزیز ہم وطنو آتے ہیں میڈیا کو کچھ عرصے کے لیے آرام کا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔ لیکن ایک اُمید ہے کہ 21 ویں صدی میں جب سب تبدیل ہوگیا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اِس طریقہ کار میں بھی تبدیلی آگئی ہو اور میڈیا پر کاری ضرب نہ لگے ہاں اگر اجازت سے خبریں لگانے کا کہا گیا تو ہم حاضر حاضر ہیں ویسے بھی میڈیا تو اب مشن سے زیادہ کمائی کا زریعہ جو بن چکا ہے۔

 مگر کیا کریں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ عمران خان ، طاہر القادری اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت ساری سیاسی قیادت ان بنیادی مسائل کے حل کا درست راستہ بنانے کے بجائے کئی اور معاملات پر بات کررہے ہیں، جنہیں ذاتی انا سے تھوڑا سا اوپراٹھ کر اسمبلیوں کے اندر ہی باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ معاف کیجئے گا !لیکن کیا کریں ہماری سیاسی و فوجی قیادت کو بھی’’ ایڈونچر ازم‘‘ کا چسکا لگ گیا ہے۔

عمران خان ، طاہر القادری اور نواز شریف صاحبان سے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی تمام ’’آنیاں اور جانیاں‘‘ جمہوریت ہی کے دم سے ہیں۔انہیں کسی بھی آمر کے دور میں برقرار رکھنا اتنا سہل نہیں ہوگا جتنا آج ہے ۔بس آپ کے جو بھی مطالبے ہوں مگر اس بات کو یقینی بنائیں کہ جمہوری نظام کو آپ سے’’ کاری ضرب‘‘ نہ لگے۔ ورنہ یہ قوم بھی، جمہوری سیاستدان ، دانشور بھی آپ کو زندگی بھر آمر یت کو بلاوا دینے کا تانا دیتے رہینگے اور وہ قوم جس کے دکھ و درد کا مداوا کرنے کیلئے آپ دو یا تین دہائیوں سے سیاست کررہے ہیں ان کے مسائل جو ں کے توں رہ جائینگے ،ہو سکتا ہے ان میں سے چند ایک آپ سب کو وہ کچھ بھی کہہ دیں جس کے بعد ’’دوبارہ اٹھنا کسی کے بس کی بات نہیں‘‘ ۔

میں یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہا ہوں،عزیز ہم وطنو یا فرشتوں کے آنے سے صرف آپ لوگ ہی محدود نہیں ہونگے،آپ کے لوگوں کی وفا داریاں ہی خریدی نہیں جائینگی بلکہ وکلا اور صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کی سرگرمیاں بھی ایک دائرے میں آجائینگی ۔آپ کی آواز کی وہ گھن گھرج دب جائے گی، جوآج میڈیا کی آزادی کے دور میں موجود ہے۔کیوں کہ جو لوگ موجودہ جمہوری دور میں بھی کئی میڈیا ہاؤسز کیلئے حدود کا تعین کرسکتے ہیں وہ اب کی بار اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ بننے کے بعد سیاستدانوں ، صحافیوں اور وکلا ء کے ساتھ کیا کرینگے۔ اس پر ہم سب الامان الحفیظ ہی کہہ سکتے ہیں۔میرا خیال ہے بات ہم سب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔کیوں؟درست کہنا نا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔