(کھیل کود) - ہمارے اور آپکے بابائے کرکٹ ’مصباح الحق‘

سلیم ناصر  ہفتہ 9 اگست 2014
کرکٹ کیلیے دی جانے والی خدمات کی بنا پر مستقبل میں ہمارے اور آپکے مصباح الحق بابائے کرکٹ کے نام سے پہجانے جائیں گے۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کیلیے دی جانے والی خدمات کی بنا پر مستقبل میں ہمارے اور آپکے مصباح الحق بابائے کرکٹ کے نام سے پہجانے جائیں گے۔ فوٹو: فائل

یار آپ نے کل کا میچ دیکھا ؟ ہاں یار اس میں تو نئے آنے والے  کھلاڑی مصباح الحق نےکمال کی بیٹنگ کی، کاش وہ آخری گیند پر چھکا مارنے میں کامیاب ہوجاتے تو پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل میچ جیت جاتا، یہ کرکٹ کے دو شوقین لڑکوں کی گفتگو تھی جو اپنے گلی کے نکڑ بیٹھ کر مصباح الحق کی انڈیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میچ کی جانے والی ذمہ دارانہ بیٹنگ پر تبصرہ کر رہے تھے،ورلڈ کپ کا فائنل ہار جانے کے باوجود مصباح الحق عوام میں مقبول ترین کھلاڑی بن گئے، ان دنوں مصباح الحق کی شہرت عروج پر تھی، کسی نے کہا کہ وہ تو بالکل جارح مزاج شاہد آفریدی کی طرح ہےتو کسی نے شاہد آفریدی سے بھی بہترین بیٹسمین قرار دیا۔

کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ شایقین کرکٹ نے مصباح الحق کے سست یا پھر ڈھیلے مزاج بیٹنگ پر  مایوسی کا اظہار کیا،طبعیتاًجذباتی شایقین کرکٹ نے اس وقت مصباح الحق کو ما یوس کیا جب انھوں نے مصباح الحق کو ٹک ٹک اور مس بال الحق جیسے ناموں سے پکارا۔

مصباح الحق نے صبر اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنی کرکٹ جاری رکھی اور بلا آخر وہ آئی سی سی رینگنگ میں بہترین بیٹسمینوں کی لسٹ میں شامل ہوگئے،اور تو اور پیچھلے دنوں لاہور میں لگنے والے فٹنس تربیتی کیمپ میں پاکستانی کھلاڑیوں میں سے مصباح الحق اور یونس خان ہی تھے جن کو بہترین فٹنس کے حامل قرار دیا گیا تھا۔ اِسی دوران میں آپ کو یاد کرواتا چلوں کے یہ وہی مصباح الحق ہیں جن  کو دنیا کے 21ویں اور پاکستان کے پہلے 40 سال سے ذائد عمر رکھنے والے کپتان کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔

مصباح الحق پاکستانی ٹیم کے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی ہونے کے باوجودفٹنس کے مسائل سے میلوں دور ہیں، پاکستانی نوجوان کرکٹرز میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں لیکن اس کے با وجود نوجوان کرکٹر اپنی فٹنس برقرار نہ رکھنے کے سبب قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں سے قاصر رہتے ہےیا پھر خراب فٹنس کی بنا پر اچھی کارکردگی دیکھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

پاکستانی شایقین  کا المیہ شاید یہ ہے کہ اُنہیں ایسا بیٹسمن  چاہیئے جو ہر گیند پر چھکا لگائےیا پھر صفر پر آوٹ ہوجائے،جس کی ایک مثال شاہد خان آفریدی کی ہے جو اپنی جارح مزاج بیٹنگ کی بنا پر پاکستانی عوام میں مقبول ہیں لیکن عالمی رینکنگ میں اپنا نام لکھوانے سے قاصر ہے۔

ویسے تو اگر آپ ایک اندھے کھلاڑی کو بھی ہاتھ میں بیٹ تہما دیں  تو وہ بھی پھنکے کی طرح گھوم کر اپنی تیز ترین ففٹی یا سینچری مکمل کردے گا،لیکن ایسی کرکٹ کو عالمی نظروں میں بد ترین کرکٹ کہا جائے گا،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرا اشارہ شاہد خان آفریدی کی طرف ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں کیوں کہ شاہد خان آفریدی قومی ہیرو ہے میرا مقصد تو صرف زمہ دار اور غیر ذمہ دار کھلاڑی میں فرق واضح کرنا تھا  اور شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ  مصباح الحق کی کرکٹ کے لیے دی جانے والی خدمات کے بنا پر مستقبل میں ہمارے اور آپکے مصباح الحق بابائے کرکٹ کے نام سے پہجانے جائیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔