(پاکستان ایک نظر میں) - کیا یہی ’’انقلاب‘‘ ہے؟

سدرہ ایاز  ہفتہ 9 اگست 2014
احتجاج، توڑ پھوڑ ، حملے، الزامات اور شرانگیز تقاریر کے ذریعے آنے والا ’’انقلاب‘‘ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فوٹو فائل

احتجاج، توڑ پھوڑ ، حملے، الزامات اور شرانگیز تقاریر کے ذریعے آنے والا ’’انقلاب‘‘ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فوٹو فائل

پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان دھواں دار جھڑپیں، کارکن جاں بحق، پولیس اہلکار زخمی۔ میں نے آنکھیں جھپکائیں اور دوبارہ خبر پر اپنی نگاہیں مرکوز کردیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے جذبانی کارکنوں نے ماڈل ٹاؤن کے مرکز سے نکل کر خود سے کنٹینرز کو ہٹایا پولیس کی جانب سے لگائی گئی تمام رکاوٹیں توڑ دیں۔ صرف اتنا ہی نہیں جذباتی کارکنوں نے پولیس اہلکاروں پر ڈنڈوں سے حملہ کردیا، سرکاری اسلحہ اور جیکٹیس چھین لیں، بلآخر جب کارکنوں نے پولیس کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع کی تب جاگر پولیس کی جانب سے عوامی تحریک کے کارکنوں کی گرفتاری کا عمل کیا گیا۔

بلاوجہ ہم نے پولیس کو بدنام کرکے رکھا ہوا ہے۔ گذشتہ رات اس قدر صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے پر حکومت کی طرف سے شاباشی تو ضرور ملنی چاہئے۔ لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ  17 جون کے واقعے کے بعد ایک بار پھر پرامن جماعت کے کارکنوں کا نعرہ لگانے والوں کو اچانک کیا ہوگیا؟

جی ہاں مجھے یاد ہے کہ کل یعنی 10 اگست کو پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے یوم شہداء پر خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کو یوم شہدا منانے کا حق نہیں ہے، کارکن کسی سیاسی جماعت کا ہو، عام شہری ہو یا کسی بھی مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو، آئے روز جاں بحق، شہید اور ہلاک ہونے والی خبریں سن کر مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔

اُمت مسلمہ کی گہری نیند کا دکھ کیا کم ہے جو طاہر القادری صاحب اپنی تقاریر کے ذریعے کارکنوں کو اشتعال دلا کر انقلاب لانے کے در پر ہیں۔

پاک فوج نے جس طرح دہشتگردی کے خاتمے کے لئے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا عوام بھی اسی طرح حکومت کے خلاف آپریشن کریں۔

ہمارے کارکنوں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔

اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔

 کیا طاہر لقادری کی اس طرح کی شرانگیز تقاریر سے ملک میں امن قائم رہ سکتا ہے؟۔ یہی نہیں قادری صاحب تو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں کارکنوں کو کربلا اور غزہ کی طرح محصور کردیا ہے۔ قادری صاحب گذشتہ رات کہیں آپ خواب خرگوش کی نیند کے مزے لے رہے ہونگے، کاش آپ حکومت پر کربلا اور غزہ کا الزام لگانے سے پہلے آپ اپنے پرامن کارکنوں کی جذباتیت پر ایک نظر ڈال لیتے۔

حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ہی راستوں کو کنٹینرز کے ذریعے سیل کیا تھا، اگر آپ کو ان کنٹینرز سے اتنا ہی مسئلہ تھا تو امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے بجائے آپ پر امن طریقے سے حکومت کے  بات جیت کرکے کنٹینرز ہٹوا بھی سکتے تھے۔ مشتعل کارکنوں کو بھیج کر اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟۔ یہ ہنگامہ صرف فیصل ٹاؤن اور جناح چوک تک محدود نہیں رہا بلکہ مشتعل کارکنوں نے ضلع خوشاب کے ایک تھانے پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی جس کے نتیجے میں تمام ریکارڈ جل کر خاکستر ہوگیا۔

احتجاج، توڑ پھوڑ ، حملے، الزامات اور شرانگیز تقایر کے ذریعے آنے والا ’’انقلاب‘‘ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب اصل سوال تو یہ بنتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں ابھرنے والےجماعت عوامی تحریک کے پر امن کارکنوں نے کس کی اجازت سے قانون کی خلاف ورزی کی؟ جلاؤ گھیراؤ ، شیلنگ اور ڈنڈے برسائے؟۔ اس سب کا حساب کون دے گا؟ْ۔ حیرت تو حکومت پر ہے، صرف طاہرالقادری کے خلاف عوام کو تشدد پر اکسانے کا مقدمہ درج کرا کر حکومت کون کا تیز مارلیا ہے؟۔ حالت کو بدلنے کے دعویدار خود ایک سال میں ڈر گئے۔ اگر حکومت بروقت کارروائی کرلیتی تو گذشتہ رات 5 افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھونے پڑتے۔ لیکن سیاستدانوں کے وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔

 اگر آج ملک میں پھیلتی ہوئی اس انارکی کو نہ روکا کیا تو کل کو امریکا، روس یا پھر اسرائیل سے کوئی تیز ہوا کا جھونکا انقلاب کے نعرے لگاتا ہوتے پاک سرزمین پر اپنا قبضہ جمالے گا، تو پھر ہم کیا کریں گے؟۔

خدا قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے نے کوشش نہیں کرتی۔ 60 سال پہلے حالات کی چکی میں پسنے والی عوام کی قسمت آج تک نہیں بدلی۔ اب بھی وقت ہے اٹھو، جاگ جاؤ، یا تو اپنے ہاتھوں اپنی تقدیر بدل لو ورنہ پھر چلو یہ مگرمچھ کے آنسو صاف کرو اور ایک بار پھر اندھی تقلید کرتے ہوئے اگلے 60 سال پسنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔