جمہوریت عوام کی بادشاہت ہے

زاہدہ حنا  ہفتہ 9 اگست 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں ہمارے یہاں کچھ لوگ اپنی تقریروں میں کہہ رہے ہیں کہ ملک میں بادشاہت ہے اور وہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود ایک جمہوری عمل کے ذریعے پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بنے ہیں لیکن گھن گرج کے ساتھ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بادشاہت نافذ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے شاید تاریخ نہیں پڑھی یا پھر تاریخی ناولوں کو پڑھ کر یہ سمجھا کہ وہ تاریخ کے شناور ہو چکے ہیں۔ ان ہی جیسے لوگوں کے لیے عظیم رومی فلسفی اور دانشور سسرو نے کہا تھا کہ اپنی پیدائش سے پہلے کے واقعات سے آگاہ نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے انسان ہمیشہ بچہ رہے۔

فرعون کا نام لینے والوں کے کانوں میں ہزاروں برس پہلے غلاموں کی پیٹھ پر پڑنے والے چابکوں کی دہشت ناک آوازیں نہیں آتیں‘ تب ہی وہ آج کے نظمِ حکومت کا مقابلہ فراعنہ کے دور سے کرتے ہیں۔ کاش انھوں نے ان غلاموں کے علاوہ دیوار چین کی تعمیر کی داستان پڑھی ہوتی تو انھیں اندازہ ہوتا کہ ہزاروں میل طویل اور گزوں چوڑی اس دیوار کی ایک ایک اینٹ چینی بیگار مزدوروں نے کس مشقت سے رکھی تھی۔ اگر وہ تاریخ پڑھتے تو انھیں خاقان چین کے جبر و جبروت کے بارے میں کچھ اندازہ ہوتا۔

پاکستان میں ’بادشاہت‘ کی بات کرتے ہوئے یہ لوگ ماضی بعید کو جانے دیں ‘ اگر ماضی قریب کے بادشاہوں کے اعمال و افکار ان کے علم میں ہوں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں قاچاری بادشاہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذہب کی آڑ میں جو کچھ کیا‘ اسے پڑھ کر یقین نہیں آتا‘ وہ زندہ انسانوں کے سر میں میخیں ٹھُکواتے‘ شاہی ضیافت کے دوران قیدیوں کے بدن پر چربی مل کر انہیں کھمبوں سے باندھ دیا جاتا اور پھر انھیں ’روشن‘ کر دیا جاتا ‘ ان کی چیخ و پکار اور جلتے ہوئے گوشت کی چراند میں ضیافت جاری رہتی۔

مہمانوں کا خوف سے جو حال ہوتا ہو گا‘ اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیاسی قیدیوں کی گردن کی پشت میں فولادی آنکڑا ڈال کر ان کی زبان گدی سے کھینچ لی جاتی۔ غیر ملکی سفرا اور مہمان یہ بھی دیکھتے کہ تندور میں دہکتے ہوئے توے تیار رکھے ہیں‘ معتوب قیدی کا سر تلوار سے اڑایا جاتا اور فوراً ہی جلاد اس کی کٹی ہوئی گردن پر بڑے بڑے چمٹوں سے وہ دہکتا ہوا توا رکھ دیتا جس سے خون کا بہاؤ رک جاتا‘ قیدی کا خون اور بدن جب تک سرد نہ پڑتا‘ اس وقت تک اس کی لاش رقص کرتی رہتی۔ اسی منظر کو ’رقصِ بسمل‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔

(بہر سو رقص بسمل بود شب جائیکہ من بودم) چند دہائیوں پہلے رضا شاہ پہلوی کے دور میں خفیہ ایجنسی ’ساواک‘ نے نوجوان ایرانی دانشوروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور فلم سازوں پر کیا ظلم روا نہیں رکھے۔ تفصیل میں جانا ہو تو پولش صحافی اور ادیب ریشارد کاپوسنسکی کا شاہکار ’شہنشاہ‘ پڑھئے جس میں ایرانی شہنشاہیت کی حفاظت کے لیے جو نسخے ایجاد ہوئے ان کا تفصیل سے ذکر ہے۔ ایک اور بادشاہت جو تقدس کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے‘ اس کے کارنامے بیان کرنے کے لیے میرے پاس لفظ نہیں۔ اور لفظ اگر مل بھی جائیں تو چھاپے گا کون؟

اب کچھ ان بادشاہوں اور شہنشاہوں کا ذکر بھی ہو جائے جو اب سے بہت پہلے اپنے اپنے زمانے میں خوف و دہشت کی علامت تھے ۔ 434ء سے لے کر 453ء تک مغربی یورپ میں اٹیلا دی ہُن کا نام لیا جاتا تو لوگ تھرّا اٹھتے تھے۔ اسی طرح چنگیز اور ہلاکو کے نا م کیسے فراموش کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے لشکر جہاں سے گزرتے اگر ان شہروں نے قلعہ بند ہو کر ان سے مقابلے کی جرأت کی ہوتی تو اسے فتح کرنے کے بعد ہر زن بچہ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا اور پھر ان سروں سے فتح کے مینار تعمیر کیے جاتے۔ یہ قُلّہ سر شہر کی بیرونی حد پر تعمیر کیے جاتے تا کہ ہر گزرنے والا سروں کے اس مینار کو دیکھے اور عبرت پکڑے۔

ایک بادشاہ سلامت ولاد سوم تھے۔ وہ لاشوں کے درمیان ضیافت کا اہتما م کرتے۔ کباب کھاتے‘ شراب پیتے اور شباب سے جی بہلاتے۔ انھوں نے ایک شہر ’املاس‘ فتح کیا تو وہاں رہنے والے 20 ہزار مردوں‘ عورتوں اور بچوں کا ستھراؤ کیا۔ انھیں بے بس انسانوں کو اذیت دینے میں لطف آتا تھا۔ ان کی محبوب سزاؤں میں زندہ انسانوں کی کھال کھنچوانا‘ انھیں کھولتے ہوئے پانی میں اُبالنا‘ ان کے بدن کے ایک ایک جوڑ کو الگ کروانا ‘ زندہ جلوانا‘ دہکتے ہوئے الاؤ پر بھوننا‘ میخیں ٹھونک کر انسانوں کو لمحہ لمحہ مرنے کے لیے چھوڑ دینا اور زندہ دفن کر دینا تھا ۔

ایک بادشاہ سلامت روس کے آئیوان چہارم تھے۔ وہ 1533ء سے 1547ء تک مسکووے (ماسکو) کے گرانڈ ڈیوک رہے۔ اپنے لیے زار (Czar) کا لقب سب سے پہلے انھوں نے ہی اختیار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ روس میں اس سے زیادہ خوفناک سزائیں دینے والا کوئی بادشاہ نہیں گزرا‘ اسی لیے اسے ’خوفناک آئیوان‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے ہزاروں لوگوں کو کڑھاؤ میں بھون کر ہلاک کیا۔ اس کے سپاہی روزانہ 500 اور ہزار شہریوں یا دیہاتیوں کو پکڑ لاتے اور آئیوان چہارم کے سامنے انھیں خوفناک اذیتیں دے کر ختم کیا جاتا۔

بلجیم جو آج ایک مہذب ملک ہے اس پر 1865ء میں ایک ایسا بادشاہ تخت نشین ہوا جس نے لیوپورڈ دوم کے نام سے شہرت پائی۔ اس نے وسطی افریقا کے ملک کانگو پر جو بیلجیم کی نو آبادی تھا نظرِ کرم کی۔ وہاں سے ربڑ اور ہاتھی دانت کا بہت بڑا ذخیرہ بلجیئم لایا جاتا اور اسے کھلے بازار میں نیلام کیا جاتا جس سے خطیر رقم حاصل ہوتی۔ اس کام کے لیے اس نے کانگو کے سیاہ فام باشندوں کو جبراً غلام بنایا‘ اس کے دور شاہی میں کانگو کے 30 لاکھ باشندے ہلاک کیے گئے۔

ہم اگر اموی اور عباسی دور پر نظر کریں تو ملوکیت جو خلافت راشدہ کے بعد آغاز ہوئی‘ اس کا سب سے اہم اور دل ہلا دینے والا واقعہ قتل حسین ؑاور ان کے رفقا کی شہادت ہے۔ قتل حسینؑ کے بعد ان کے جسد خاکی کی بے حرمتی ہوئی۔ ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا وہ تاریخ میں درج ہے۔

عباسی دور میں خلفا نے عوام پر جو ظلم و ستم روا رکھا‘ اس کی تفصیل میں جانا یہاں ممکن نہیں۔ صرف یہ عرض کردوں کہ عباسی خلیفہ ابو المنصور نے امام ابو حنیفہ کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز کرنا چاہا اور ان کے مسلسل انکار پر اس قدر برافروختہ ہوا کہ انھیں زندان میں ڈال کر بے پناہ تشدد کیا۔ وہ ایک زندانی کے طور پر ختم ہوئے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا جنازہ اٹھا تو لوگوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ نماز جنازہ 6 مرتبہ ادا کی گئی۔ امام ابن حنبل خلیفہ مامون سے اختلاف کی بنیاد پر قید کیے گئے اور اس کے دور خلافت میں قید ہی رہے۔

اس کے جانشین المعتصم نے انھیں اتنے درے لگوائے کہ وہ بے جان ہو گئے۔ یہی سلسلہ الواثق کے دور میں بھی جاری رہا۔ عباسی دور میں ’انا لحق‘ کا نعرہ لگانے والے منصور حلاج کو کتر کتر کر ہلاک کیا گیا جس میں 3 دن لگے۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے بارے میں ابن انشا نے کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ اس نے کوئی نماز قضا نہ کی اور کوئی بھائی زندہ نہ چھوڑا۔

ہر دور کے مشرک‘ یہودی‘ عیسائی اور مسلم بادشاہوں نے خواص اور عوام پر جو ستم روا رکھے وہ سب تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ ان حقائق کو جاننے کی زحمت ہمارے آج کے نام نہاد رہنما نہیں کرتے اور یہ اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بادشاہت ہے جسے وہ جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ آمریت‘ بادشاہت کی جدید شکل ہے۔ آمروں نے جو ظلم ڈھائے وہ ایک الگ داستان ہے۔ پاکستان نے بھی آمریت کے گہرے گھاؤ سہے ہیں۔

بڑی مشکل اور بے پناہ قربانیوں اور المناک واقعات کے بعد جس میں وطن کی تقسیم بھی شامل تھی‘ ہم ایک جمہوری دور میں داخل ہوئے ہیں۔ در اصل جو لوگ آمریت کا زمانہ واپس لانا چاہتے ہیں وہ یہ بات کھل کر نہیں کہہ سکتے لہٰذا اب وہ بادشاہت کے خاتمے کے نام پر دوبارہ آمریت کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ خوش رہیں‘ ان کے مداح‘ ان کے پروانے خوش رہیں۔ حضور کاش آپ نے تاریخ پڑھی ہوتی اور جانتے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں جمہوریت‘ عوام کی بادشاہت کا دوسرا نام ہے جو اسے ووٹ کی طاقت سے حاصل ہوتی ہے۔ آپ دراصل اسی ’بادشاہت‘ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔