ہے دل کے لیے موت؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 9 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

علامہ اقبال کا انتقال 1938ء میں ہو چکا تھا۔ لیکن ان کا ایک شعر اکثر مجھے یہ سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ وہ شعر انھوں نے کن حالات و واقعات اور احساسات کے تناظر میں کہا تھا۔ جو ان کی نظم ’’لینن‘‘ میں (بال جبریل) موجود ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اقبال کا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے شعری مفہوم سے 90 فیصد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے، 10 فیصد نمبر میں نے اوپن ہارٹ سرجری کو دے دیے ہیں کہ اب مشینوں کے ذریعے دل دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اقبال کے زمانے میں نہ ڈیپ فریزر تھے، نہ فریج عام تھے، نہ موبائل فون، نہ کمپیوٹر، نہ ٹیلی ویژن، نہ انٹرنیٹ، نہ فیس بک، ٹوئیٹر، آئی فون اور آئی پیڈ کی حکمرانی تھی، نہ الیکٹرک جوسر، بلینڈر، مائیکرو ویو اوون، چوپر، گرائنڈر موجود تھے، نہ دیگر الیکٹرانک آلات اور مشینیں؟ پھر اس شعر کی شان نزول کیا ہے؟ ایسی کون سی مشینیں تھیں جن کی موجودگی انسانی جذبات و احساسات کو روند رہی تھی، کچل رہی تھی، اور ایک حساس شاعر پریشان تھا، افسردہ تھا۔ انھوں نے خود ایک جگہ فرمایا کہ:

شاعری، جزویست پیغمبری
غالبؔ ان سے بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالبؔ! صریر خامہ نوائے سروش ہے

لکھنے والے پر ایک الہامی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جو اکتسابی نہیں بلکہ وہبی ہوتی ہے۔ اور وہی کیفیت ایسے شعر کہلواتی ہے۔ یہ خدا کی دین ہے وہ جسے چاہے دے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ ہماری مراد اصلی شاعر سے ہے۔ متشاعر یعنی دوسروں کے لفظ خرید کر ایک جھٹکے میں ’’صاحب دیوان‘‘ بن جانے والے شعبدہ بازوں سے نہیں۔

لیکن علامہ اقبال کے اس مذکورہ شعر کو اگر آج کے ماحول، سماجی روابط، بیماریوں، دلوں کے ٹوٹنے اور رشتوں میں دراڑیں پڑنے کے تناظر میں دیکھا جائے۔ تو یہ آج کی مہذب دنیا کے انسان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ آپ سب سے پہلے ڈیپ فریزر اور فریج کو لے لیجیے۔ جن میں کئی کئی ہفتوں بلکہ بقر عید کے بعد تو مہینوں تک گوشت کو محفوظ کر کے دل اور شریانوں کے لیے مہلک بنا دیا جاتا ہے۔ حکما اور ڈاکٹر اس بات پہ متفق ہیں کہ بہت زیادہ دنوں تک مصنوعی طریقے سے کچا گوشت اور پکے پکائے کھانے محفوظ کرنے سے بے شمار بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

جن میں ہائی بلڈ پریشر، اپھارہ، بدہضمی اور تیزابیت سرفہرست ہیں۔ یہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کئی کئی دنوں کا فریز کیا ہوا کھانا گرم ہونے کے بعد اپنا اصلی ذائقہ کھو دیتا ہے۔ اب آ جائیے مائیکرو ویو اوون کی طرف، جس کی تیز شعاعیں کھانوں میں جذب ہو کر انسانی معدے میں پہنچتی ہیں اور کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔ بھلا ہو اس احساس کمتری اور جہالت کا جس نے خواتین کو احساس ذمے داری سے دور کر کے صرف بیوٹی پارلر تک محدود کر دیا ہے۔ اب بن بیاہی لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کا اصل مسئلہ صرف گورا ہونا ہے۔ اس کے لیے وہ جاں سے گزرنے کو بھی تیار۔ سارا وقت تو اس تلاش اور کوشش میں نکل جاتا ہے کہ رنگ گورا کیسے کیا جائے۔

کیمیکل اور تیزاب ملی کریموں سے یا مختلف لوشن اور صابنوں کے استعمال سے؟ اس جانفشانی کے بعد وقت کہاں بچتا ہے کہ کچن میں جایا جائے۔ ویسے بھی کچن کی گرمی میں رنگ جھلسنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ اس لیے فریز کیے ہوئے بازار کے تیار کھانوں کو مائیکرو ویو اوون میں گرم کر کے کھانا زیادہ بہتر اور آسان لگتا ہے۔ خواہ اس سے تیزابیت پیدا ہو یا کولیسٹرول کی سطح بلند ہو۔

ہماری ایک اسکول کی ساتھی نے جس کا رنگ بہت گورا تھا، میٹرک کے بعد تعلیم کو اس لیے خیرباد کہہ دیا تھا کہ کالج آنے جانے میں رنگ سنولا جانے کا خدشہ تھا۔ انھیں صرف ایسے رشتے کا انتظار تھا جو ان کے رنگ و روپ کو ہر شے پہ ترجیح دے۔ بہرحال وہ اپنی کوشش میں تو کامیاب ہو گئیں، لیکن انھیں گھر داری سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ نہ ہی والدہ محترمہ نے اس جانب توجہ دلائی۔ لیکن شادی کے چند ماہ بعد ہی دولہا میاں کو اندازہ ہو گیا کہ زندگی میں سیرت و کردار اور امور خانہ داری کی کیا اہمیت ہے۔

اب آ جائیے ایئرکنڈیشن کی طرف۔ مصنوعی ٹھنڈک میں مسلسل بیٹھے رہنے سے جوڑوں کا درد، نزلہ اور سائی نس (Sinus) کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ان مشینوں کے موجد لٹریچر میں ان نقصانات اور بیماریوں کا بھی تفصیلاً ذکر کر دیتے ہیں جو ان کے مسلسل استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری نقال قوم اس لٹریچر کو پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ وہ ایجادات کے بعد اس کے نقصانات کا بھی جائزہ لیتے اور تجربات کرتے رہتے ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں۔ جدید ترین تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیکرو ویو اوون اور موبائل فونز کا زیادہ استعمال دماغی معذوری کا سبب بھی بن رہا ہے۔ لیکن کسے پرواہ؟ جو قومیں کتاب اور مطالعے سے دور ہوتی جاتی ہیں۔ انھیں ان تباہیوں کا ادراک کیونکر ہو سکتا ہے۔ بڑی اور زندہ قوموں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ہی ایجاد کردہ مصنوعات کو محض ذاتی فائدے کے لیے اشتہار بازی سے فروغ نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے ’’انسان‘‘ اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پونسٹان (Ponstan) سے لے کر موبائل فون، کمپیوٹر اور مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے پیدا ہونے والے منفی اور مضر اثرات سے پوری دنیا کو آگاہ بھی کر رہے ہیں۔

اب لے لیجیے کاروں اور موٹر سائیکلوں کے غیر ضروری استعمال کو۔ اور اس تناظر میں اقبالؔ کے شعر کو دیکھیے۔ تو میری بات سے اتفاق کریں گے کہ بڑھتا ہوا موٹاپا، باہر نکلے ہوئے پیٹ، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے بہت سے امراض کی وجہ مسلسل ان گاڑیوں کا استعمال ہے۔ دہی اور آلو بھی قریب کی مارکیٹ سے لینے ہوں گے تو گاڑی کے بغیر نکلنا ممکن نہیں۔ دن بھر دفتروں میں، ٹھنڈے ماحول میں بیٹھے رہیے، اور شام کو اپنی سیٹ سے اٹھ کر بائیک، کار یا بس میں سوار ہو کر گھر پہنچ گئے۔

ٹیکسی اور رکشہ تو دروازے پہ اتارنے کے پابند۔ ہم نے خود کو محض تن آسانی، نقالی اور حرص نے فطرت سے اس حد تک دور کر دیا ہے کہ کھانا پکانے کے پروگراموں میں اگر کوئی سمجھدار خاتون، حکیم یا ڈاکٹر مختلف امراض سے بچنے کے لیے گھریلو نسخے بتاتے ہیں تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ بھلا کس طرح سویوں کا پانی پینے سے نزلہ زکام دور ہو جاتا ہے۔ نیبو، تلسی، اجوائن، سونف، انجیر، اور پودینے کا استعمال صحت کے لیے کیوں ضروری ہے۔ بقول اقبالؔ:

یہ امت خرافات میں کھو گئی
ایک طرف اگر مشینوں کے ذریعے آکسیجن دے کر تنفس بحال کیا جا رہا ہے، دل کی بند شریانوں کو کھولا جا رہا ہے، تو یہ بھی تو سوچیے کہ ان امراض کی نوبت کیوں آئی؟ گھر کے پکے ہوئے صحت بخش کھانوں کو چھوڑ کر چربی میں پکے ہوئے کھانے، پیزا، برگر، نہاری، چپلی کباب اور اسی قبیل کے دیگر کھانے جن کے مضر صحت ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ مغربی اقوام نے بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کا نوٹس لیا اور حکومت نے پیزا، برگر، فرنچ فرائز، اور دیگر ایسے جنک فوڈ پر پابندی لگانے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ جن کے بے تحاشا استعمال سے کم عمری میں بچے موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔

بات مشینوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے مضر اثرات سے شروع ہوئی تو یہ بھی یاد رکھیے کہ مصنوعی مشروبات جن میں کیمیکل کی وافر مقدار ہوتی ہے۔ وہ معدے، حلق اور جگر کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ مشروبات کا استعمال تو ہمیشہ سے تھا۔ لیکن یہ ڈبوں اور بوتلوں میں بند نہیں بلکہ گھروں میں تیار ہونے والے تازہ شربت اور سکنجبین ہوا کرتے تھے۔ آج بھی پڑھے لکھے ان مہذب گھرانوں میں جو تقلید کو احساس کمتری جانتے ہیں وہ نقالی کے بجائے اب بھی صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کاش اقبالؔ اگر آج زندہ ہوتے تو یہ ضرور کہتے:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔