’آزادی مارچ ،انقلاب مارچ سے پہلے ‘

اصغر عبداللہ  اتوار 10 اگست 2014
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں ، ماڈل ٹاون لاہور ، جہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہایش گاہ واقع ہے ، کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پنجاب پولیس کے درمیان لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں وقفہ وقفہ سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ باقاعدہ شروع نہیں ہوا کہ حکومت کے اپنے احکامات کے نتیجہ میں صوبے کا کاروبار زندگی مفلوج ہو گیا ہے ۔

عجب اتفاق ہے کہ ماڈل ٹاون جس کی شناخت کسی زمانے میں شریف خاندان کی رہائش گاہیں اور ان کی تعمیر کردہ اتفاق مسجد تھی ،17 جون 2014 ء کے سانحہ کے بعد آج اس کی پہچان ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک سادہ سا مکان اور ان کا تعلیمی ادارہ منہاج القران ہے ۔ گزشتہ اتوار کو جب دوپہر ایک بجے کے لگ بھگ میں اور برادرم سلمان عابد ادارہ منہاج القران کے مقابل پارک میں پہنچے تو موسم بہت مرطوب ہو رہا تھا ۔ عوامی تحریک کی جنرل کونسل کے ہزاروںارکان پسینے سے شرابورکھلے آسمان تلے بیٹھے تھے، لیکن مجال ہے کہ کسی کے چہرے پر تکلیف یابیزاری کا شائبہ بھی ہو۔

ڈاکٹر طاہرالقادری ، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کی رفاقت میں اسٹیج پر آئے تو جنرل کونسل کے ارکان کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے خطاب میں ، جہاں10 مارچ کو سانحہ ماڈل ٹاون کے شہدا کے لیے قرآن خوانی کا اعلان کیا ، وہاں یہ ذمے داری بھی قبول کی کہ قرآن خوانی کا یہ اجتماع پرامن ہو گا۔ اپنے کارکنوں کو یہ ہدایت بھی جاری کی کہ دوران سفر میں وہ اپنے ہاتھ میں قرآن ، تسبیح اور جائے نماز بھی رکھیں گے اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے آئیں گے۔

اس یقین دہانی کے بعد چاہیے تویہ تھا کہ حکومت اس پرامن اجتماع کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرتی ، لیکن معلوم نہیں کیوں حکومت نے اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حکومت کے اس فیصلہ بعد ملکی حالا ت تلاطم کا شکار ہو چکے ہیں ، اورآیندہ چند روز میں کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں ، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی حکومت نے اگست کے پورا مہینہ میں اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، اور دوسری طرف اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں کو ، جو براہ راست وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں ، عملا ً بلاک کر دیا ہے، بلکہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج بھی طلب کر لی ہے ۔

اس طرح نوازشریف حکومت جو چند دن پہلے تک عمران خان ، طاہر القادری اور چوہدری برادران کو بار بار یہ طعنہ دے رہی تھی کہ وہ فوجی مداخلت کی راہ ہموار کر رہے ہیں ، اب خود اس طعنہ کی سزا وار قرار چکی ہے۔ ستم یہ ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال عرصہ دراز سے خراب ہے ۔ لیکن ، چند ماہ پہلے جب الطاف حسین نے آرٹیکل 245 کے تحت کراچی کو فوج کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ، تو حکومت نے نہ صرف یہ کہ ایم کیوایم کا مطالبہ مسترد کردیا ، بلکہ اسے غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا ؛ لیکن ، آج خود حکومت کی طرف سے صرف اس مفروضہ پرکہ اسلام آباد میں امن وامان خراب ہونے کا اندیشہ ہے ، آرٹیکل 245 کے نفاذ کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے ۔

حکومت جو بھی کہے، یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ دارالحکومت میں آرٹیکل 245 نافذ کرنے کا فیصلہ ، عمران خان ، طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد کے ’’آزادی ، انقلاب مارچ‘‘ سے خائف ہو کر کیا گیا ہے۔ ہنگامی حالات میں حکومت سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کر سکتی ہے، اور کرتی رہی ہے، لیکن سیاسی مقاصد کے لیے آرٹیکل 245 سے مدد لینے کا معاملہ ، قطعاً مختلف معاملہ ہے ۔

پنجاب میں سیاسی بنیادوں پرآرٹیکل 245 نافذ کرنے کی مثال اس سے پہلے صرف بھٹو دور میں ملتی ہے ، جب21 اپریل 1977ء کو بھٹو حکومت کی طرف سے آرٹیکل 245 کے تحت لاہور،کراچی اور حیدرآباد میں فوج طلب کی گئی تھی ۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس کے بعد بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک ختم ہو جاتی، مزید تیز ہو گئی اور باقی شہروں میں بھی پھیل گئی ۔وزیراعظم بھٹو نے فوج طلب کرنے کے فیصلہ پر ہی اکتفا نہیں کیا ، چند روز فوج سے یہ فرمایش بھی کی کہ وہ حکومت کی حمایت میں ایک تحریری بیان بھی جاری کردے ۔ یہ ایک خلاف معمول اقدام تھا ۔

تاہم27 اپریل کو مطلوبہ بیان جاری کر دیا گیا، جس کے الفاظ تھے کہ ’’جہاں عسکری ضابطہ مسلح افواج کے وابستگان کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کر تا ہے ، وہاں اندرونی تخریب کاری یا بیرونی جارحیت کی صورت میں انھیں اس بات کا پابند بھی بناتا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اوریکجہتی کے تحفظ کو یقنی بنائیں ۔

ہم واشگاف لفظوں میں بتاتا چاہتے ہیں کہ فوج قانونی طور پر تشکیل دی گئی موجودہ حکومت کی مدد میں اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی کے لیے مکمل طورپر متحد ہے۔‘‘ تاہم 7 مارچ 1977ء کو فارمیشنوں کو جی ایچ کیو کی طرف سے جو کمانڈ کمیونی کیشن موصول ہوا ،اس میں صراحت سے کہا گیا کہ ’’قومی اسمبلی کے الیکشن کے بعد سے سارا ملک احتجاجی سیاست کی زد میں ہے، تاہم حکومت کے قانونی اور غیر قانونی ہونے کے بارے میں فوج کو فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘قبل ازیں 4 مئی 1977ء کو وزیراعظم بھٹو نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق اور دیگر سروسز چیفس کی تحریری حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا لیکن حالات اس کے باوجود بھٹو حکومت کے قابو سے باہر ہو گئے۔

یہ آخری سطور لکھ رہا ہوں تو نوازشریف حکومت کی طرف سے’’ قومی سلامتی کانفرنس ‘‘ کے انعقاد کی خبر آگئی ہے ۔ ایک ہوتی ہے ’آل پارٹیز کانفرنس‘ اور ایک ہوتی ہے ’قومی سلامتی کونسل‘ ، یہ دونوں کا ملغوبہ ’’قومی سلامتی کانفرنس‘‘ کیا چیز ہے، ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ یہ ٹی وی ٹکر نظر سے گزرا کہ ’ قومی سلامتی کانفرنس میں آرمی چیف اورآئی ایس آئی چیف کو بھی مدعو کیا گیا ہے ، وہ آپریشن ضرب عضب پر شرکائے کانفرنس کو بریفنگ دیں گے ۔

حکومتی ترجمان‘۔’اتفاق‘ ملاحظہ کیجیے کہ اِدھر عمران خان نے14 اگست کو آزادی مارچ کرنے کا اعلان کیا ، اُدھر نوازشریف حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے ممکنہ ردعمل کی وجہ سے اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کر لی ۔ پھر ، اِدھر ڈاکٹر طاہر القادری نے10 اگست کو یوم شہدا منانے کا اعلان کیا ، اُدھر نوازشریف حکومت نے آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ کے لیے’ قومی سلامتی کانفرنس‘ طلب کر لی ۔

تاہم ، دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں اورسمجھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا دباو کم کرنے کے لیے یہ حکومت کی ایک حکمت عملی بھی ہے ۔ حکومت کی یہ حکمت عملی اپنی جگہ ، لیکن نظر بظاہر یہی آ رہا ہے کہ صوبہ پنجاب ، جس کے بل بوتے پر11 مئی2014 ء کے بعد مسلم لیگ ن اسلام آباد میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی ، یہاں اس کو عوامی تحریک ، مسلم لیگ ق ، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے غیر اعلانیہ اتحاد سے سخت خطرہ لاحق ہو چکا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس خطرہ کو ٹالنے میں کامیاب ہوتی یا نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔