نواب میرعثمان علی خان کی علمی خدمات… (آخری حصہ)

عبدالرزاق گلبرگوی  اتوار 10 اگست 2014

29اکتوبر 1913 کے ’’الہلال‘‘ میں مولانا عبدالسلام ندوی نے حضور نظام میر عثمان علی خاں کی مولانا شبلی نعمانی کی قدردانی پر اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔

ایشیا میں علوم و فنون نے ہمیشہ سلطنت کی آغوش میں تربیت پائی ہے۔ یہ خصوصیت بقائے علوم کے ساتھ خود سلطنت کی بھی شہرت، وسعت، تمدن اور بقائے نام کا ذریعہ ہے۔ ہندوستان میں ریاست حیدرآباد نے ایشیا کی اس خصوصیت کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ چنانچہ اس وقت ہندوستان میں جس قدر ستون علم ہیں ان سب کو اسی ریاست نے قائم کر رکھا ہے۔

مولانا حالی اسی خرمن فیض کے خوشہ میں ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کی تصنیفات کا سلسلہ اسی ریاست کے دامن عاطفت کے ساتھ وابستہ ہے۔ حال ہی میں حضور نظام نے اس سلسلے کو اور بھی مستحکم اور اپنے دامن فیض کو وسیع تر کردیا ہے۔ یعنی مولانا شبلی نعمانی کے ماہوار وظیفے میں دو سو روپے ماہوار کا اضافہ فرمایا ہے یقین ہے کہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں حضور نظام کی اس علمی فیاضی کی قدر کی جائے گی۔ کیوں کہ ابھی تک ہندوستان میں علم سے اشخاص پیدا نہیں ہوتے بلکہ اشخاص سے علم پیدا ہوتا ہے اور ریاست حیدرآباد ان کائنات علمیہ کی آدم اول ہے۔

1930 میں جب ہاشم رضا صاحب کی عمر 60 سال تھی فرماں روائے دکن میر عثمان علی خاں سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ جب نظام دکن لکھنو آئے تو ان کے اعزاز میں سر وزیر حسن نے ایک عصرانہ دیا۔ ہاشم رضا اپنے والد کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ فرماں روائے دکن سے اس پہلی ملاقات نے ان پر جو تاثر قائم کیا اس کا تذکرہ۔ میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو یہ محسوس ہوا کہ میں کسی بادشاہ کا نہیں بلکہ ایک درویش کا دیدار کر رہا ہوں۔ ان کے سر پر طرۂ زر کی جگہ کہنہ ترکی ٹوپی تھی۔

ان کے گلے میں ہیرے اور زمرد کے ہار کے بجائے ایک معمولی سا مفلر تھا۔ ان کی شیروانی اطلس و کم خواب کی نہ تھی بلکہ اس کپڑے کی تھی جس کی قیمت چند روپے فی گز سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے پیر میں زرنگار نعلین نہ تھیں بلکہ نہایت سادھا جوتا تھا۔ مجھ پر ان کی سادگی نے وہ رعب ڈالا جو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نہ ڈال سکے۔

مجوزہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے چندہ کی آغا خان نے ہر جگہ اپیل کی۔ کافی رقم جمع ہوئی۔ایک جلسے میں مختلف افراد سے چندہ لینے کے لیے نام پکارے گئے۔ پچیس تیس نام گزر گئے لیکن ایک نام کا دانستہ اعلان آغا خان نے آخر میں یہ کہہ کر کیا: ’’ہم نے ان چندوں میں ہمارے سرتاج حضور نظام خلد اﷲ و ملکہ کی امداد کو تو شمار ہی نہیں کیا۔ اس اعلان پر مجمعے نے بڑے جوش سے تالیاں بجائیں۔‘‘

علامہ محمد اسد کے دورہ حیدرآباد دکن کا ذکر پڑھنے میں آیا۔ جو بہت دلچسپ اور طویل ہے۔ نظام حیدر آباد دکن کے بارے میں بہت خوبصورت تبصرے ہیں۔ طلعت مسعود کی طرح علامہ نے بھی ایک بسکٹ کے حوالے سے بات کی ہے لیکن یہ اتنی بری نہیں لگتی ایک اور بات طلعت مسعود صاحب نے اپنے دادا کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں دادا مسعود علی کو نظام نے انجمن ترقی اردو کا ناظم بنایا۔ یہ نام اور انجمن ترقی اردو پاکستان کے ناظم کا نام کبھی پڑھنے میں نہیں آیا ۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کے ریکارڈ میں یہ نام اور عہدہ درج ہے تو مطلع کرے ، ایک نام مسعود علی محوی ملتا ہے لیکن شعرا کی فہرست میں یہ نام ہے ، لیکن شعرا کی فہرست میں یہ نام ہے۔

اب آخر میں جناب طلعت مسعود سے درخواست ہے کہ وہ اسلام آباد جائیں تو دربار بری امام جائیں وہاں ایک سرائے ہے جو 1914 یعنی اب سے سو سال قبل تعمیر ہوئی تھی یعنی نظام دکن میر عثمان علی کی تخت نشینی کا تیسرا سال تھا۔ اس سرائے میں کہیں یہ کتبہ لگا نظر ائے گا۔

حضور پر نور سپہ سالار، رستم دوراں
ارسطوئے زماں مظفر المالک نظام الدولہ
نظام الملک آصف جاہ نواب میر عثمان علی خاں بہادر
فتح جنگ بہ اہتمام سائیں رحیم علی شاہ گلیم بوٹی
در 1914ء مطابق 1325 ھ سر انجام یافت ۔

ہوسکے تو اس کتبہ کے ساتھ اپنی ایک تصویر لے کر ایکسپریس اخبار کو بھیجیں۔ میں اپنے عزیزوں کو اس کتبے کی تصویر لے کر بھیجنے کے لیے کہا تھا انھوں نے میری خواہش کو پورا نہیں کیا۔ شاید آپ میری اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کردیں۔

طلعت مسعود نے جامعہ عثمانیہ کا نام بھی لیا ہے گو اس میں تنقید نہیں ہے لیکن اس کے قیام میں جو رکاوٹیں تھیں ان کا ذکر ضروری ہے۔ سید مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’’حضرت امام ابو حنیفہؒ کی سیاسی زندگی ‘‘ کا مقدمہ ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے لکھا تھا۔ سید صاحب کی علمی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے اور بھی بہت سی معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ معلومات تاریخی، علمی ہونے کی وجہ سے اور ڈاکٹر کے انتقال اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو جامعہ کے قیام کے پس منظر میں اہمیت کی حامل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کوئی پھولوں کی سیج نہ تھی، ایک خود مختار دیسی ریس ریاست ہونے کے باوجود انگریزی سفیر جسے RESIDENT کہا جاتا تھا اس کی مرضی کے خلاف کوئی اہم کام بڑی مشکل سے ہوسکتا تھا۔ جدید وضع کی جامعہ اور ذریعہ تعلیم انگریزی نہ ہو اردو ہو یہ گھریلو حیدرآبادی چیز نہ تھی اس کے اثرات سارے برطانوی ہند کے نظام تعلیم پر پڑتے۔ انگریز کیونکر منظور کرتا کہ اس کی بات کے چلتے انگریزی زبان پر کوئی ٹیڑھی نظر بھی ڈال سکے۔ لیکن بہر حال انگریز نے اسے منظور بھی کیا تو اس تصور اور تیاری کے ساتھ کہ نظام کے خرچ پر یہ تجربہ کرایا جائے اور اس کے ناکام ہونے پر برطانوی ہند کے سیاسی شورش کرنے والوں کو بتایا جائے کہ کالی زبان (اردو) میں جدید علوم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔

اردو زبان میں اعلیٰ اور جدید تعلیم کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مخلص ٹیم حیدرآباد میں موجود تھی ۔ (کم فہم) نظام دکن نے اس ٹیم کی رہنمائی کی اور (لالچی وکنجوس) نظام دکن نے بقول سر مرزا اسماعیل تین کروڑ کے وسائل ان کے حوالے کیے جو نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ کا قیام بہت کم عرصے میں ایک زندہ حقیقت بن گیا۔ یہ حقیقت حضور نظام کی تخت نشینی کے صرف دس سال کے اندر وجود میں آئی۔ اس کا فیض صرف اہل دکن کو ہی نہیں برطانوی ہند کے عوام کو بھی پہنچا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔