سیاست کی بند گلی

سلمان عابد  اتوار 10 اگست 2014
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی جمہوری سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ اگرچہ سیاسی فریقین ایک دوسرے کی مدد اور مشاورت کے ساتھ محفوظ راستہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں، لیکن بعض سیاسی فریقین کے سخت گیر موقف کے باعث عملی طور پر سیاسی ڈیڈ لاک بدستور برقرار ہے۔

یہ صورتحال ماضی میں موجود بڑے سیاسی بحرانوں سے کم نہیں، بلکہ بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول حالیہ بحران ماضی کے بحرانوں سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ جب سیاسی قیادت یا سیاسی قوتیں کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہو جائیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو، تو ایسی قوتیں جو جمہوریت کے مقابلے میں دوسرے نظام کی خواہش مند ہیں ان کی بالادستی کا کھیل مضبوط شکل اختیار کرجاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس حالیہ بحران سے جمہوری عمل کے برعکس خدشات میں مبتلا ہیںان کی تشویش کو یکسر طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر اپنے فیصلے خود نہ کرسکیں، تو دوسری قوتوں کی مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جو اچھی حکمت عملی نہیں ہوتی۔

حکومت اس وقت حالیہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے دو حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہے، ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اول حکومت کی کوشش ہے کہ وہ خود بھی اور اپنی اتحادی جماعتوں سمیت وہ جماعتیں جو اس وقت عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے سیاسی فاصلہ پر ہیں، کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکال سکیں جو حکومت اور مزاحمت کرنے والوں کے درمیان کوئی سیاسی سمجھوتہ کا راستہ نکال سکیں۔

دوئم اگر حکومت کو لگتا ہے کہ معاملات سیاسی انداز میں حل نہیں ہوتے تو اس نے معاملات کو سیاست سے ہٹ کر انتظامی بنیادوں پر نمٹنے کا دوسرا پلان بھی ترتیب دیا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ابھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہے، لیکن اس کے برعکس انتظامی عمل سے بھی معاملات  ڈیل کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ادارہ مہناج القران اوراس کے اردگردکے علاقہ کو جس انداز سے کنٹینروں سے سیل کر دیا گیا ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ لاہور میں رینجرز کی طلبی، موٹر سائیکلوں کو جبری بنیادوں پر بند کرنا، پٹرول کی عدم ترسیل، کارکنوں کی گرفتاری، موبائل سروس کی بندش، اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو بند کرنے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی پریشانی کا کھیل بھی عروج پر ہے۔ ایک بات حکومت کو سمجھنی ہوگی کہ انتظامی اقدامات کا سب سے بڑا اثر خود حکومت پر پڑے گا۔

جس نے بھی حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے علیحدہ علیحدہ نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دے، غلط حکمت عملی ہے۔ ایک سے سیاسی اور دوسرے کے خلاف طاقت کا استمال خود ایک بڑے تصادم کی طرف لے جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی ایک فریق کے خلاف طاقت کا استمال کر کے ان کو بند گلی میں محدود کیا جائے گا تو اس کا منفی اثر دوسری قوتوں پر بھی پڑے گا۔ سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ اگر عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف طاقت کے استمال میں کہیں بھی پرتشدد عمل سامنے آیا تو حالات کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ کیونکہ بدقسمتی یہ ہے کہ پر تشدد عمل مزید تشدد کے عمل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔

وہ جماعتیں جو اس وقت حکومت کی حمایت کر رہی ہیں، حالات کے بگاڑ میں وہ کس حدتک حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں گی، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی پہلے ہی اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے کی مخالفت کر رہی ہیں، ان کا دباؤ ہے کہ حکومت 14 اگست سے قبل فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ واپسلے، اسی طرح انھوں نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے خلاف دیگر حکومتی اقدامات کی بھی مخالفت کی ہے۔ خورشید شاہ کے بقول حکومت کی مشکل یہ ہے کہ وہ سیاسی لڑائی کو سیاسی انداز میں لڑنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے بقول ہم نے حکومت کو جومفاہمت کے لیے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، اس پر حکومتی غیر سنجیدگی بڑے سانحہ کو جنم دے سکتی ہے۔

حکومت کی مشکل یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا جو سخت گیر موقف ہے اس کی کیسے حمایت کی جائے۔ کیونکہ ابھی تک عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری میں سے کسی نے بھی کوئی ایسی سیاسی لچک کا مظاہر ہ نہیں کیا، جو فوری طور پر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکے۔ وہ سیاسی قوتیں جو عمران خان سے ملی ہیں انھیں عمران خان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ابھی تک وہ کچھ نہیں مل سکا، جو ان کی خواہش تھی۔ عمران خان کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری نے تو حکومت سے مفاہمت کے تمام تر دروازے بند کیے ہوئے ہیں، ان کے بقول حکومت سے کسی بھی طور پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ اب جب کہ حکومت نے حتمی طورپر ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف کریک ڈاون کا فیصلہ کر کے انتظامی اقدامات شروع کر دیے ہیں تو ان سے مفاہمت کا راستہ عملی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان اپنے موقف میں کس حد تک سیاسی لچک کا مظاہر ہ کرتے ہیں، یہ عمل خود حکومت کی سیاسی لچک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جہاں دونوں بڑے فریقین کو اپنے اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کرنا ہو گا۔

عمومی طور پر جب پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں جو سیاسی بحران سامنے آئے اس میں ملکی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بیرونی اسٹیبلیشمنٹ بھی سامنے آتی تھی۔ لیکن اب یہ قوتیں پس پردہ رہ کر صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں اور دیکھ رہی ہیں کہ یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

اس بار زیادہ تر معاملات کا تعلق داخلی سیاست سے ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ داخلی سیاست کے فریقوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف نے حالیہ دنوں میں یہ تاثر دیا ہے کہ سیاست کے بیشتر اہم فریق حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم سے سیاسی قیادتوں کی تواتر سے ملاقاتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ لیکن اس کا اصل فیصلہ تو نتائج پر منحصر ہے۔ اگر واقعی نتائج حکومت کے حق میں ہوئے تو سیاسی قیادتوں کی حکومت کو دی جانے والی مشاورت کو کامیاب سمجھا جائے گا، وگرنہ دوسری صورت میں یہ مشاورت حکومت کے مثبت نتائج کو سامنے نہیں لاتی تو اس سے حکومت کی اپنی ناکامی کا تاثر بھی ابھرے گا، جو خود حکومت کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔

حکومت اور عمران خان سمیت ڈاکٹر طاہر القادری و چوہدری برادران کے درمیان رسہ کشی کے دو مناظر ہیں۔ اول 14 اگست سے پہلے کے معاملات کے نتائج دیتے ہیں۔ دوئم 14 اگست کے بعد حکومت اور مخالفین کے درمیان دوسرا سیاسی راونڈ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس سیاسی لڑائی نے 14 اگست کو ختم نہیں ہونا، بلکہ محاذ آرائی کی ایک اور نئی شکل بھی سامنے آسکتی ہے۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا جارحانہ انداز آسانی سے ختم نہیں ہو گا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے مطالبات میں جس حد تک آگے چلے گئے ہیں، دیکھنا ہو گا کہ یہ دونوں فریقین کن مطالبوں پر اور کن کی ضمانت پر راضی ہو سکتے ہیں۔

البتہ عمران خان پر دیگر سیاسی قیادتوں کا دباؤ ہے کہ وہ معاملات کو بند گلی میں لے کر جانے کی بجائے کوئی ایسا مفاہمت کا راستہ نکالیں جو موجودہ ’’سیاسی شورش‘‘ کو ختم کرنے کا سبب بن سکے۔ لیکن مفاہمت کی یہ کنجی عملی طور پر حکومت کے پاس ہے، دیکھنا ہو گا کہ وہ اس کنجی سے ایسی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے جو ایک ہی وقت میں حکومت کے لیے اور حکومت مخالف قوتوں کے لیے بھی مفاہمت کا پیغام لا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔