بابا غوث بخش بزنجو

مقتدا منصور  اتوار 10 اگست 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا پاکستان میں عوامی جمہوری جدوجہد کے سرگرم رہنما بابائے استمان غوث بخش بزنجو مرحوم کی 25ویں برسی منائی جارہی ہوگی۔ میر صاحب کے قابل اعتماد دست راست بی ایم کٹی کی مرتب کردہ سوانح کے مطابق وہ دسمبر 1917 میں ضلع خضدار کے نال نامی گائوں میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے۔ جہاں سے 1938 میں گریجویشن کرنے کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی (KSNP) میں شمولیت اختیار کی۔

یہاں سے ان کی عملی سیاست کا آغاز ہوتا ہے، جو قیام پاکستان کے بعد ایک نئی وسعت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) سے پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) تک ملک گیر ترقی پسند جماعت کی تشکیل میں ان کا کلیدی کردار رہا۔  میرغوث بخش بزنجو مرحوم ایسے رہنما تھے جنھوں نے ہمیشہ اس ملک میں ایک مہذب و شائستہ نظم حکمرانی کے قیام کے لیے ہر مواقع پر صائب مشورے دیے اور اپنے نظریات اور اصولوں کی خاطر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

حالات و واقعات یہ بتارہے ہیں کہ اگر انھوں نے وقتاً فوقتاً جو مشورے دیے تھے، ان پر عمل کرلیا جاتا، تو شاید ملک ان مسائل ومصائب کا شکار نہ ہوتا، جن میں آج گھرا ہوا ہے۔میر صاحب شروع میں آزاد قلات ریاست کے حامی تھے۔ یاد رہے کہ تقسیم ہند کے سرکاری اعلان سے دو روز قبل یعنی 12 اگست 1947 کو قلات ریاست نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ 12 دسمبر 1947 کوقلات ریاست کی نئی پارلیمان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں نو منتخب اراکین کی حلف برداری ہوئی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے میر صاحب مرحوم نے کہا تھا کہ صرف مذہب ممالک کی تشکیل کا سبب نہیں ہوتے، بلکہ اس مقصد کے لیے دیگر عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا اسلام کے نام پر ایران اور افغانستان بھی پاکستان میں شامل ہوں گے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر قلات کو پاکستان میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد ان کی سوچ تبدیل ہوگئی۔

اس ملاقات کے بارے میں برادر عزیز یوسف مستی خان کے گھر ایک نشست میں میر صاحب مرحوم نے بتایا کہ گل خان نصیر اور چند دیگر بلوچ رہنمائوں کے ساتھ وہ کانگریسی قیادت سے ملنے دہلی گئے تاکہ آزاد قلات ریاست کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرسکیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو سے تو ملاقات نہیں ہوسکی، لیکن مولانا ابوالکلام آزاد سے طویل ملاقات کا موقع مل گیا، جنھوں  نے بلوچ رہنمائوں کو مشورہ دیا کہ وہ آزاد ریاست کے بجائے پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دیں، کیونکہ اس طرح انگریز کسی نہ کسی صورت خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا۔

میر صاحب مرحوم کا کہنا تھا کہ انھوں نے مولانا کے مشورے پر سر تسلیم خم کیا۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ خود انگریز تو چلا جائے گا، لیکن اس خطے بالخصوص پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی شکل میں ایک نیا عذاب چھوڑ جائے گا، جو جمہوری عمل کو سبوتاژ کرتا رہے گا۔فروری 1948 میں قائداعظم سے ملاقات کے بعد خان آف قلات میر احمد یار خان نے مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا، تو ان کی خواہش پر میر صاحب مرحوم نے بھی اپنے قریبی ساتھیوں گل خان نصیر اور عبداﷲ جان جمالدینی کے ساتھ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

مگر جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ مسلم لیگ بلوچ حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے مناسب فورم نہیں ہے، بلکہ بلوچوں کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے، چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ سے علیحدہ ہوگئے۔ 1955 میں جب حکومت پاکستان نے پیرٹی کے اصول کو بنیاد بناکر مغربی حصے کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ون یونٹ کے چنگل میں جکڑا تو میر صاحب مرحوم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نئی جماعت تشکیل دی۔ لیکن 1957 میں جب مولانا بھاشانی عوامی لیگ سے الگ ہوئے تو مشرقی اور مغربی پاکستان کے ترقی پسند سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے نام سے نئی جماعت تشکیل دی، اس کی تشکیل میں میرصاحب نے کلیدی کردار ادا کیا۔

اغلب گمان تھا کہ فروری 1959 میں متوقع انتخابات میں NAP دونوں بازوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرلے گی مگر NAP کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ اسٹبلشمنٹ نے مارشل لا نافذ کرکے انتخابات ہی کو نہیں ٹالا، بلکہ سقوط ڈھاکا کی بھی بنیاد رکھ دی۔1964 میں NAP دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو میرصاحب اپنے ساتھیوں سمیت NAP کے ولی گروپ میں شامل ہوگئے۔ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی، جب کہ NAP نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کامیابی حاصل کی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر پختونخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کی۔

سقوط ڈھاکا کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کے لیے آئین سازی کا کام شروع ہوا تو یہ میر صاحب کی دیدہ وری تھی کہ انھوں نے ایک طرف پیپلز پارٹی کو مجبور کیا کہ وہ صوبائی خودمختاری کی شقیں آئین میں شامل کرے، جب کہ دوسری طرف بلوچ رہنماؤں کو آئین سازی کے عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کیا۔

وفاقی حکومت نے جب منتخب صوبائی حکومت ختم کرکے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو پختونخوا میں بھی NAP اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت نے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح ملک میں ایک  نئے سیاسی بحران نے جنم لیا۔ میر صاحب اس بحران کو جنگ وجدل کے بجائے گفت وشنید کے ذریعے طے کرنا چاہتے تھے۔ مگر دونوں جانب کے غیر لچکدار رویوں کی وجہ سے معاملات بگڑتے چلے گئے۔ NAP پر پابندی اور مرکزی قیادت کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا چلاگیا۔

قصہ مختصر، NAP پر پابندی کے بعد اس جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوںنے سردار شیر باز مزاری کی قیادت میںنیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) تشکیل دی، جس میں  پوری NAP شامل تھی۔ مگر جب افغانستان میں سردار داؤد قتل ہوئے اور نور محمد ترکئی اقتدار میں آئے تو ولی خان مرحوم اور میر صاحب مرحوم میں اختلافات بڑھ گئے۔ میر صاحب افغان ثور انقلاب کے حامی تھی، جب کہ ولی خان مرحوم اس وقت تک اس انقلاب کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔

چنانچہ جیل سے رہائی کے بعد میر صاحب اور ان کے دوستوں نے پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) کی بنیاد رکھی، جس نے جلد ہی ملک گیر قبولیت حاصل کرلی۔ یہ جنرل ضیاء کی سخت گیر آمریت کا دور تھا۔ جب تحریک بحالی جمہوریت (MRD) وجود میں آئی، تو ابتداء میں PNP اس میں شامل نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے بعد میر صاحب مرحوم نے محترمہ بینظیر شہید کو ایک طویل خط لکھ کر ان پر زور دیا کہ وہ MRD کے ایجنڈے میں صوبائی خود مختاری کے نکات کو بھی شامل کریں۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد PNP ایم آرڈی میں شامل ہوگئی۔ یوں جمہوری عمل کی جدوجہد کو مزید مہمیز لگی اور جنرل ضیاء الحق جیسا سفاک آمر غیر جماعتی بنیادوں ہی پر سہی عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوا۔

قیام پاکستان سے قبل اس خطے کی سیاست میں سرگرم رہنے والے بزنجو مرحوم آخری سانس تک پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور حقیقی وفاقیت کے اصول پر عملدرآمد کے لیے سرگرم رہے۔ وہ شروع ہی سے ترقی پسندی، جمہوریت نوازی اور فکری کثرتیت کے بہت بڑے داعی تھے۔ اس لیے آمریت سے چھٹکارے کی جدوجہد ہو یا سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش، انھوں نے ہمیشہ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی حمایت کی۔

آج انھیں ہم سے بچھڑے 25 برس ہوچکے ہیں، لیکن ان کی سیاسی فکر، ریاست و سیاست کے بارے میں سوچ اور پاکستان میں نظم حکمرانی کے بارے میں ان کے خیالات آج بھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر آج جب کہ ریاست اور جمہوریت ایک بار پھر مختلف نوعیت کے خطرات میں گھر چکی ہے، ان کی سوچ سے رہنمائی حاصل کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔