بابائے جمہوریت میر غوث بخش بزنجو…

مخدوم ایوب قریشی  پير 11 اگست 2014

کامریڈ لینن نے کہا تھا ہر دور کا ایک اسپارٹیکس ہوتا ہے، فرق صرف حالات و واقعات اور ماحول کا ہوتا ہے ورنہ کوئی بھی تحریک اسپارٹیکس سے خالی نہیں ہوتی۔ گلے سڑے اور ظالمانہ نظام کے خلاف ہر جدوجہد کی قیادت کرنے والا اپنے اپنے دور کا اسپارٹیکس ہوتا ہے۔

فرسودہ نظام کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والوں میں اسپارٹیکس کا حوصلہ، ہمت اور اپنے لوگوں کے ساتھ کمٹمنٹ ظالمانہ نظام کے خلاف برپا ہونے والی تحریکوں میں روح پھونک دیتا ہے، ایسی ہی ایک مضبوط اور عوام دوست شخصیت کا نام غوث بخش بزنجو ہے۔ میر غوث بخش بزنجو ایک نہیں کئی عوامی تحریکوں کے اسپارٹیکس ہیں۔

اس ملک کی سیاست میں اس عظیم اور بڑے سیاست دان کے نقش قدم پر چلنا ہر سیاسی کارکن اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے، ان کے نظریاتی دشمن بھی ان کی بااصول اور لازوال سیاسی جدوجہد کے معترف ہیں۔ معروف سیاسی رہنما یوسف مستی خان کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں میر صاحب سے بڑا سیاستدان اور شاندار انسان نہیں دیکھا، 1917 انقلاب روس کا سال ہے اور اسی سال دسمبر کے مہینے میں میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گاؤں شانک میں پیدا ہوئے، یہ گاؤں ضلع آواران کے جھاؤ علاقے میں واقع ہے، میر صاحب کے والد کا نام سفر خان تھا۔

ان کا آبائی گاؤں نال، ضلع خضدار میں ہے، میر صاحب ابھی ایک برس کے تھے کہ یتیم ہوگئے، آپ کے دادا سردار فقیر محمد بزنجو 1839 میں محراب خان حکومت میں مکران کے گورنر تھے، وہ تقریباً 45 برس تک گورنر رہے۔ ایک قبائلی سماج میں کسی ایسے یتیم بچے کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتی جس کے پاس کافی جائیداد بھی ہو اور چھیننے والے بھی طاقت ور ہوں، یہ غوث بخش بزنجو کی ماں ہی جانتی ہے کہ کن دشواریوں سے ایک بیوہ ماں نے طاقتور دشمنوں سے بچا کر اپنے یتیم بچے کو پالا ہوگا۔

میر صاحب کا کہنا ہے کہ والدہ نے بچپن ہی سے مجھ میں بلوچیت کے جراثیم پیدا کردیے تھے (بلوچی قصے کہانیوں کے ذریعے) وہ اسکول کے زمانے میں فٹبال کے کھلاڑی بنے اور اسی فٹبال کی وجہ سے سینڈیمن سے ہوتے ہوئے علی گڑھ جا پہنچے اور وہاں فٹبال ٹیم کے کیپٹن ہوگئے اور جب تک علی گڑھ میں رہے فٹبال کا گولڈ میڈل علی گڑھ کو ہی ملتا رہا، لیکن بابا نے کھلاڑی کب بننا تھا، انھیں تو بے زبان لوگوں کی زبان بننا تھا، ظلم کے خلاف دیوار بننا تھا۔

علی گڑھ میں پرامن سیاسی ہلچل کے زمانے میں بزنجو مسلم لیگ کے بجائے کانگریس کے حامی بنے اور پھر آہستہ آہستہ ان کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہوا۔ وہ چار سال وہاں رہے اور پھر 1938 میں میٹرک کرنے کے بعد واپس آگئے۔ نال میں شادی کی، چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کے باپ بنے۔ 38 میں کراچی کی ایک سرگرم تنظیم بلوچ لیگ میں شامل ہوگئے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے قلات میں قلات نیشنل پارٹی کے سالانہ کنونشن میں شریک ہوئے اور پھر اس کے عہدیدار ہوگئے۔

1941 میں قلات نیشنل پارٹی کو آل انڈیا پیپلز کانفرنس کا ممبر بنایا جس کے صدر شیخ عبداﷲ و نائب صدر جواہر لال نہرو تھے۔ 1937 میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے، جب نیشنل پارٹی پر پابندی لگی تو اس کے خلاف احتجاج کیا، گرفتار ہوئے، جائیداد ضبط ہوئی، جب آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا تو تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ مکران بدر ہوئے، جلاوطنی کے یہ احکام دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد واپس لیے گئے۔

مارچ 1948 میں سازشیں رنگ لائیں اور بابا بزنجو کو گرفتار کرکے خضدار جیل کے سپرد کردیا گیا۔ 54 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی، پھر بزنجو اور دوستوں نے مل کر استمان گل (عوام الناس کی پارٹی) بنا ڈالی۔ 54 میں ہی اس پارٹی کو پاکستان نیشنل پارٹی میں ضم کردیا گیا۔

57 میں پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) عوامی نیشنل پارٹی (NAP) بن گئی، لفظ عوامی کا اضافہ مولانا بھاشانی کے مطالبے پر ہوا، ان کی قیادت میں عوامی لیگ کا ایک بڑا دھڑا الگ ہوکر نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوا تھا، اس طرح نیپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی اور بابا بزنجو اس کے لیڈر۔ 58 میں بزنجو اپنے ساتھیوں سمیت ایک بار پھر جیل جا پہنچے قلی کیمپ کی سخت ایذا رسانی، بہیمانہ تشدد، الٹا لٹکایا جانا، نقطہ انجماد سے نیچے کی سردی میں کپڑے اتار کر فرش پر لٹانا اور اوپر ٹھنڈا پانی ڈالنا۔

اسی عوام دشمن دور میں بابا بزنجو نے 1964 میں لیاری سے الیکشن جیتا۔ 1970 کے انتخابات میں نیپ کو بلوچستان سے مکمل اور پختونخوا سے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ پورے ملک میں واضح اکثریت شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے حاصل کی تھی لیکن کچھ گماشتہ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ریاست کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کر دیا، جس کی بابا بزنجو اور اس کی جماعت نے شدید مخالفت کی لیکن پھر جو ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

باقی بچ جانے والے حصے کو حکمرانوں نے نئے پاکستان کا نام دیا جوکہ ظاہر ہے کہ بے آئین تھا۔ آئین بنانے اور مختلف الخیال جماعتوں اور سیاستدانوں کو نئے آئین پر متفق کرنے میں بھی بابا نے اپنی سیاسی بصیرت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس طرح 73 کا دستور اتفاق رائے سے منظور ہوا۔ بلوچستان اور پختونخوا میں NAP اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ بابا بزنجو بلوچستان کے گورنر بنے اور عطا اﷲ مینگل وزیراعلیٰ۔ یہ حکومت اپنی تمام تر عوام دوستی اور عوامی مقبولیت کے باوجود ایک سال سے بھی کم عرصہ چلی۔

بلوچستان پر بڑے پیمانے پرآپریشن شروع کرکے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ بابا بزنجو اپنے ساتھیوں سمیت پھر گرفتار ہوئے۔ 1973 سے لے کر 1978 تک جیل میں رہے جب کہ 5 جولائی 1977 کو جمہوری حکومت ختم ہو گئی۔ جیل سے رہائی کے کچھ عرصے بعد ولی خان اور بابا بزنجو کی سیاسی راہیں جدا ہوگئیں۔

غوث بخش بزنجو افغانی ثور انقلاب کے زبردست حامی تھے جب کہ ولی خان اور این ڈی پی کی قیادت اس انقلاب کی مخالف تھی، ولی خان ضیائی مارشل لا کے لیے بھی خیر سگالی کے جذبات رکھتے تھے جب کہ بزنجو اصولوں کی بنیاد پر ڈکٹیٹر شپ کے سخت مخالف تھے۔ اس طرح بابا بزنجو اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنا شروع کی۔ بزنجو ضیا کی طرف سے بھٹو پر چلائے جانے والے مقدمے کے بھی خلاف تھے، وہ بھٹو کی پھانسی پر بہت غمگین ہوگئے۔

1981 میں ایم آر ڈی بن گئی لیکن بابا بزنجو کو اس میں شمولیت کی کوئی زیادہ جلدی نہیں تھی، انھوں نے ایم آر ڈی میں شمولیت کے لیے اپنے مطالبات رکھے، قوموں کا حق خود ارادیت اور مرکز کے پاس چار محکمے، باقی سب اختیارات صوبوں کے پاس۔ MRD کی قیادت نے اس فارمولے کو تسلیم کیا اس طرح PNP، ایم آر ڈی کا حصہ بنی۔ اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں نے بحالی جمہوریت کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

بابا بزنجو ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور جیل گئے، رہائی کے بعد پھر جدوجہد شروع کی۔ بابا بزنجو نے اپنی زندگی کے 72 برسوں میں سے 25 سال جیل میں گزارے، جولائی 1989 کو ملک کے سیاسی حلقوں میں اس خبر کو نہایت دکھ کے ساتھ سنا گیا کہ بابا کو کینسر ہوگیا ہے اور پھر 11 اگست 1989 کو بابائے جمہوریت 20 ویں صدی کی کئی لازوال تحریکوں کا اسپارٹیکس اپنے اور کینسر کے بیچ ہونے والی جنگ ہار کر اپنے آباؤاجداد کے پاس چلا گیا۔ اب وہ اپنے گاؤں نال میں اپنی عظیم الشان لائبریری کے پیچھے (جہاں کبھی وہ اپنے باغ کے پھول پودوں کو پانی دیا کرتا تھا) سویا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔