(پاکستان ایک نظر میں) - غلام قوم کے لئے کیسی یوم آ زادی؟

عمر لنگوو  پير 11 اگست 2014
آزادی پاکستان کو تب ملے گی جب امیر اور غریب کے لئے ایک قانون ہو گا جہاں امیر اور غریب کا مکان ایک ہی جیسا ہوگا۔ جہاں حکمران اور عوام میں فاصلہ ختم ہوگا تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں ہم آ زاد ہیں۔ فوٹو: فائل

آزادی پاکستان کو تب ملے گی جب امیر اور غریب کے لئے ایک قانون ہو گا جہاں امیر اور غریب کا مکان ایک ہی جیسا ہوگا۔ جہاں حکمران اور عوام میں فاصلہ ختم ہوگا تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں ہم آ زاد ہیں۔ فوٹو: فائل

صرف ایک بار خدا کو حاضر سمجھ کریں خود سے ہی ایک سوال کریں اور خود ہی اسکا جواب دیں ۔کیا ہم ایک آزاد قوم ہیں؟ کیا ہمیں یوم آزادی منانا زیب دیتا ہے ؟

کہیں تو 14 اگست  کے لیے یوم آ زادی کی تیاری ہو رہی ہے تو کہیں 14 اگست کو آ زادی مارچ کی ۔ یوم آ زادی اور آزادی مارچ عوام کے لئے عذاب بن چکی ہے اور میڈیا کے لیے فلم و ڈرامہ ہے جس کی کوریج سے ان کا ٹا ئم پاس ہو جائیگا ۔ ہر طرف تیاریاں شروع ہو چکی ہیں ۔ لیکن یوم آ زادی اور آ زادی مارچ منا نے والے دونوں ہی پریشان ہیں ۔ حکومت کو پریشانی ہے کہ عمران خان ڈی چوک پر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کریں گے، احتجاج کریں گے  اور ان کو کیسے رو کا جائے ؟ فوج کے زریعے یا پولیس کے زریعے ؟ ۔ آ زادی مارچ والے بھی پریشان ہیں اربوں روپیہ خرچ کر یں گےمگر اِس کے باوجود اگر آ زادی نصیب نہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا؟ ۔

لوگ انقلاب اور سونامی سے نکل کر اب آزادی مارچ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔14اگست کو ہر سال کی طرح یوم آ زادی منائی جاتی ہے۔   دیکھا جائے تو یوم آ زادی پاکستان جیسے ممالک کے لئے خود فریبی ہے ۔ دھوکہ ہے ، جھوٹ اور مکاری ہے ۔ کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی آ نکھیں بند کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اب اندھیرا ہے بلی مجھے نہیں دیکھے گی۔ اور اسی طرح تھوڑی ہی دیر میں کبوتر اپنی جان گواہ دیتاہے ۔ اس کو خود فریبی ہی کہا جاتا ہے ۔ درحقیقت پاکستانی قوم کی حالت کچھ ایسی ہی ہے ۔ یوم آ زادی منا کر خود کو دھوکہ دے رہی ہے اور دنیا کو بلی کی طرح سمجھتے ہیں کہ کہیں دنیا ان پر حاوی نہ ہو جائے ۔۔

یوم آ زادی منانا تو اسرائیل کو زیب دیتا ہے جو اپنی آ زادی کا دعوی ٰ بھی کر رہا ہے اور دنیا کو آزاد اور طاقتور ہونے کا ثبوت بھی دے رہا ہے جس کے سامنے50سے زائد اسلامی ممالک بھی کمزور بن چکے ہیں ۔ جس کے سامنے ایٹمی طاقت بھی زیرہو چکی ہے ۔ جو فلسطین غزہ پر جبری قبضہ اور ظلم ڈھا رہا ہے مگر کوئی اسے سرخ آ نکھ و ہاتھ دکھانے کے قابل نہیں یہاں تک کہ اقوام متحدہ جیسی طاقت ور تنظیم بھی۔

یوم آزادی تو امریکا کو منانا زیب دیتا ہے جو کہ پوری دنیا میں اپنی دہشت قائم کرنے میں کامیاب ہواہے۔ جس نے پاکستان سے افغانستان اور عراق سے لبنان ،مصر تک اپنی بادشاہت قائم کی ہے۔ آزادی کے ساتھ ڈرون حملے کرتا ہے۔ جس نے درجن سے زائد اسلامی ممالک میں اپنی دہشت قائم کر کے امریکی قوم کو اُن پر فضیلت بخشنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے

یوم آ زادی تو چین کو بھی زیب دیتا ہے جس نے انتھک محنت کر کے اپنی ریاست میں مہنگائی ، بے روزگاری اور لاقانونیت کو کنٹرول کر کے معاشی دنیا میں اپنا مقام بنایاہے ۔

یوم آ زادی تو بھارت کو بھی منانی چاہئے اور اُس کو زیب بھی دیتا ہےکہ  امریکہ اس کے کسی بھی خطے میں ڈرون حملہ نہیں کر سکتا ہے ۔ امریکہ بھارت کی شہریوں کو دہشت گرد بھی نہیں سمجھتا اور ان کو عزت دیتے ہیں ۔

پاکستان کیوں یوم آ زادی منائے ؟ کیا حق ہے اس قوم کو اور اس کے موجودہ پاسبانوں کو جو یوم آ زاد ی کے دعوے کرتے ہیں ۔

یہ قوم بے روزگاری سے پریشان اور روٹی کے لئے غلام ہے ۔ نہ مہنگائی سے آ زادی ہے نہ فاقوں سے آ زادی ، بھوک و افلاک کا غلام ہے ۔ سود سے آ زاد ی نہیں ، باہر کے قرضوں سے آ زادی نہیں اور نہ ہی خاندانی حکومت سے اور نہ جعلی جمہوریت سے آ زاد ہے ۔

حکمرانوں کو آ زادملک میں کئی سال سے بجلی کے لئے ، روزگار کے لئے اور صحت کی ادویات کے لئے کروڑوں لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں بد دعائیں دے رہے ہیں ۔ حکمران ، افواج اور بیو رو کریٹس انھیں آ زادی آ زادی اور آ زادی کی جھوٹے تقریبات سے خوش کر رہے ہیں ۔

آزادی پاکستان کو تب ملے گی جب امیر غریب اور وزیر ایک ہی صف میں انصاف مانگنے کے لئے کچہری میں کھڑے ہوں گے ۔ جب امیر اور غریب کے لئے ایک قانون ہو گا ، جب امیر اور غریب میں فاصلہ نہیں ہوگا۔ جہاں امیر اور غریب کا مکان ایک ہی جیسا ہوگا۔ جہاں حکمران اور عوام میں فاصلہ ختم ہوگا تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں ہم آ زاد ہیں ۔

غلامی میں نہ کام آ تی ہیں شمشیر یں نہ تد بیریں
ہو زوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔