حسین روایات اور جدیدیت…

محمد فیصل شہزاد  منگل 12 اگست 2014

اگر کبھی کبھار ماضی میں جھانک لیا جائے تو ہمارے خیال میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ آدمی کو بہت سارے فائدے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا فائدہ جو ہمیں تو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کی یادوں میں کھوکر تھوڑی دیر کے لیے ان ساری فکروں سے ذہن و دل آزاد ہو جاتے ہیں جو دورِ جدید کا ناگزیر تحفہ ہیں۔موجودہ زمانے نے انسان کواتنا باخبر، اپ ٹو ڈیٹ اور مادہ پرست کر دیا ہے کہ زندگی سے اطمینان اور سکون گویا رخصت ہی ہو گیا ہے۔ ذہن پر ہر وقت ،یہاں تک کہ نیند میں بھی دباؤ رہتا ہے۔

مادیت کے زور میں ساری روحانی قدریں گویا پس منظر میں چلی گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر’ترقی‘کے باوجود آج روح زیادہ بیمار اور بے چین ہے ، البتہ اس کے برعکس جسم کوآج اتنا آرام میسر ہے، جو تاریخ میں کبھی نہیں رہا… اس غیر فطری آرام کا نتیجہ ہی ہے کہ ہر دوسرے جسم پر چربی چڑھ رہی ہے اور لوگ ہزاروں روپے کی دوائیں موٹاپا کم کرنے کی کھا رہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیوں کہ لوگ جدید طرزِ زندگی بدلنے کو تیار نہیں، ہم ذاتی طور پر جدید طرزِ معاشرت کے خلاف ہیں، اس کی کیا وجوہ ہیں؟ آئیے آج کے دور کا موازنہ تیس چالیس برس پہلے کے حالات سے کرتے ہیں، بات واضح ہو جائے گی۔

دیکھیے پہلے گھر کا ایک فرد کمائی کرتا تھا اور باقی گھر والے آرام سے بیٹھ کر کھاتے تھے۔ خواتین کا کام بچوں کی پرورش، تربیت اور گھرداری ہوتی اور بچے اطمینان سے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے۔ خاتونِ خانہ کی سلیقہ مندی اور قناعت پسندی کی وجہ سے نہایت قلیل آمدنی کے باوجود بھی مہینے کے آخری عشرے میں قرضہ لیے بغیر گزارا ہو جاتا۔

ہماری نانی مرحومہ بتاتی تھیں کہ اُس وقت عورتیں مولی، گوبھی کے ساتھ آنے والے پتوں کو بھی ضایع نہیں کرتی تھیں، ایک دن سبزی بنتی تو دوسرے تیسرے دن ان کے پتوں کی ساگ نما ڈش بنتی، جس میں اخلاص، شکر گزاری کا جذبہ اور گھر کے پسے اصلی مصالحے وہ لذت پیدا کر دیتے جو بقول نانی مرحومہ کے آج کے مرغن کھانوں میں بھی نہیں ہوتی۔

اس وقت بہت خوشحال سمجھے جانے والے لوگوں کے ہاں بھی ہفتے میں ایک بار گوشت پکنے کی ترتیب ہوتی تھی، ورنہ متوسط گھرانوں میں مہینے میں ایک یا دو بارہی پاؤ بھر گوشت پکا کرتا تھاجس میں آلو، اروی، بھنڈی یا لوکی شامل کر کے خوب شوربہ کر دیا جاتا…اُس وقت چونکہ آپریشن ڈیلیوری کا سلسلہ ایجاد نہیں ہوا تھا ، اس لیے ہر گھر میں اوپر تلے بہت سے بچے ہوتے، اس وجہ سے ہر ایک کے حصے میں ایک دو بوٹیاں ہی آتیں مگر محبت اور ایثار کی وجہ سے بے حد خوشی سے کھانا کھایا جاتا۔

ان سادہ کھانوں کے باوجود اس وقت لوگوں کی صحت عموماً بہت اچھی ہوتی تھی، خاص طور پر لڑکے بڑے پھرتیلے اور چست ہوتے، بھاگ بھاگ کر گھر والوں بلکہ محلے والوں کے کام کرنا، تین چارکلومیٹر پیدل چلنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ ذہین بھی بہت ہوتے جس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آج بڑی بڑی سرکاری پوسٹوں سے ریٹائر ہونے والے افراد اس وقت کے گورنمنٹ اسکولوں کی ہی کھیپ ہیں، جنہوں نے ’پیلے اسکولوں‘ سے پڑھ کرعملی زندگی میں کامیابی کے ریکارڈ بنائے۔

کھانوں کے علاوہ کپڑوں کو دیکھیں تو ان میںبھی نہایت کم خرچ میں سادگی اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے تن پوشی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔مردوں کا کام بس یہ ہوتا کہ ایک تھان لٹھے کا لڑکوں کے لیے اور ایک تھان چھینٹ یا ریشمی کپڑوں کا بچیوں کے لیے لے آئے اور بس۔ اس وقت خواتین سلائی کڑھائی میں طاق ہوتیں اور گھر کی سادہ سی سلائی مشین میں نہ صرف اپنے اور بچوں کے بلکہ گھر کے مردوں کے کپڑے بھی اتنی نفاست سے سیتیں کہ عام سا کپڑا بھی بہت خاص لگتا۔

اس وقت کپڑے انتہائی مشقت سے ہاتھ سے دھوئے جاتے، مصالحے ہاتھ سے پیسے جاتے، جھاڑو پونچھا، سلائی کڑھائی غرض صبح سے شام تک خواتین کی ڈھیروں پرمشقت مصروفیات ہوتیں، اسی وجہ سے آج کے دور کی نت نئی انتہائی خطرناک بیماریوں کے نام سے بھی پہلے کے لوگ ناواقف تھے۔ اور پھر ان تمام مصروفیات کے ساتھ بچوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جاتی اور ان کی تربیت کے لیے بھی وقت نکالا جاتا۔ مردوں کو پتا بھی نہ چلتا اور ماں، خالہ، چچی ، پھوپھی اوردادی ،نانی کے زیرِ تربیت نئی نسل خوبصورت اخلاق سے مزین ہو کر جوان ہو جاتی…

مگر پھر اچانک ’ترقی‘ کے دن آگئے اور گویا سب کچھ جادوکی چھڑی سے بدل گیا۔ صدیوں کی حسین روایات صرف دس پندرہ برس میں ہی ماضی کا کباڑ ہوئیں اور تشہیر کی منہ زور طاقت نے ہر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھایا۔جو چیزیں ماضی کا فخر تھیں، وہ شرمندگی کا باعث ہونے لگیں اور ماضی میں جس کام کو حقیر اور باعث ِ ذلت سمجھا جاتا، وہ یکدم فخر کا باعث بن گیا۔چند عشرے پہلے گانا بجاناایک مخصوص طبقے کا کام سمجھا جاتا تھا، سننے والے بھی اپنے لیے یا اپنی اولاد کے لیے اسے عیب کی چیز سمجھتے تھے، مگر آج جس کے بچے کی کچھ آواز اچھی ہو، اسے ماں باپ فخر سے ہر محفل میں متعارف کرواتے ہیں۔

کل آپ جناب سے بات کرنا مہذب ہونا اور والدین کی اچھی تربیت کی علامت تھا، جب کہ آج ماڈرن سوسائٹی میں اس طرح بات کرنا گویا خود پر دقیانوسیت کا لیبل لگانا ہے، جو جتنا منہ بگاڑ کر انگریزی زدہ اردو بولے، وہ اتنا ہی تعلیم یافتہ اور مہذب کہلاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معیارات ِزندگی’ یو ٹرن ‘لے کے بالکل ہی بدل گئے یاکہنا چاہیے کہ بدل دیے گئے اور یہ کام کیا ’اشتہارات ‘ نے… چاہے وہ لبِ سڑک بڑے بڑے بل بورڈ زکے ذریعے ہو یا اخبار، ٹی وی کے ذریعے،ان اشتہارات نے سب کچھ بدل دیا۔

نہ صرف لوگوں کی زبان بدل دی، بلکہ ان کے سوچنے کا انداز تک بدل دیا۔ آپ ذرا تصور کیجیے، کہ آج غریب کہلانے والے آدمی کے پاس بھی پچھلوں کے مقابلے میں کیا ’کچھ ‘ نہیںہے؟ سوچیے! تین چارسو سال پہلے کے راجا مہاراجاکے پاس بھی شاید وہ سہولیات نہ ہوں جوآج ہمارے خوانچہ فروش کے پاس ہیں۔صرف موبائل اور وہ بھی ملٹی میڈیا موبائل اور دو چار سمیں آج بھلا کس کے پاس نہیں ہیں؟ نیٹ اور سوشل میڈیا آج ہر وقت ہر ایک کی دسترس میں ہے۔

اسی طرح اب ہفتے دو ہفتے کی بات نہیں اکثر گھرانوں میں روز ورنہ ایک دن چھوڑ کر تو گوشت ضرور بنتا ہے ، وہ بھی سبزی ڈال کر نہیں ، کیوں کہ آج تو سبزی کو دیکھ کر ہی (چاہے وہ گوشت کے سالن میں ہی ہو) ہمارے بچوں کے منہ بن جاتے ہیں۔ قورمہ، بریانی، کڑھائی گوشت وغیرہ بھی(جن کا تصور پہلے کبھی کسی شادی کے ساتھ ہی ذہن میں آتا تھا) اب نئی نسل کے لیے بڑی بیک ورڈ سی بات ہو گئی ہے، اب تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی فاسٹ فوڈ، پیزا اور باربی کیو کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔

اور اتنا ہونے کے باوجود پھر دلوں کی تنگی ملاحظہ فرمائیے کہ فضولیات پر ہزاروں لٹادیے جاتے ہیں لیکن کوئی مہمان ایک دن کے لیے گھر آ جائے تو بوجھ لگنے لگتا ہے۔ پندرہ بیس سال قبل چھٹیوں میں لوگ آٹھ دس بچوں کے ساتھ مہمان بن کر آتے تھے اور دنوں نہیں ہفتوں آرام سے رہتے اورمیزبان کے ماتھے پر ایک شکن نہیں آتی تھی۔

کیوں کہ بے شک غربت عام تھی، گھر چھوٹے تھے لیکن دل بہت بڑے تھے۔ ایک چیز بڑی تگ و دو سے حاصل ہوتی ہے تو اگلے ماہ اس چیز کا زیادہ اچھا ماڈل مارکیٹ میں آ جاتا ہے، اور احباب کے پاس وہ چیز دیکھ کر تو حسد کی ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ پھر جب تک کسی طرح جائز نا جائز طریقے سے اس چیز کو حاصل نہ کر لیا جائے، چین نہیں ملتا مگر حقیقی چین تو پھر بھی نہیں ملتا۔

یہ ہیں جدیدیت کے وہ اثراتِ بد جن کی وجہ سے ہمارے گھر نت نئی چیزوں سے تو بھرگئے ہیں لیکن محبت،قناعت اورسکون کی دولت سے خالی ہوگئے ہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ اس جدیددور میں رہتے ہوئے بھی ہمیں ماضی پسند ہے اور ماضی کے قصے پسندہیں۔آج جب عید بقرعید پر یا کسی اور اہم موقعے پر جب ہمارے حکمراں سیکیورٹی کی وجہ سے آٹھ دس گھنٹے تک موبائل سروس بند کر دیتے ہیں تو لوگ بہت تلملاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکیورٹی کا یہ انداز حکمرانوں کی نااہلی کا ثبوت ہے لیکن بہرحال ہمیں اس دن بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔

موبائل کی ٹوں ٹوں سے چند گھنٹوں کے لیے نجات جو مل جاتی ہے۔ذرا غورتو فرمائیں،کیا ہم نے اس کھلونے کوبلکہ ساری مشینوں کو اپنے تابع کرنے کی بجائے خود کو ان کے تابع نہیں کرلیا ہے؟کیا یہ سب چیزیں ہم پر حاوی نہیں ہوگئی ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔