’سبز توانائی‘ کے منصوبے یورپ کے گلے پڑگئے

ندیم سبحان  منگل 12 اگست 2014
بجلی سستی کے بجائے مہنگی ہونے لگی۔  فوٹو : فائل

بجلی سستی کے بجائے مہنگی ہونے لگی۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے عوام بجلی منہگی ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔

ان کی یہ شکایت کچھ ایسی بے جا بھی نہیں مگر یہ صورت حال صرف وطن عزیز میں نہیں ہے بلکہ یورپ کے باسی بھی بجلی کے مسلسل بڑھتے نرخوں سے نالاں ہیں، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انھیں گھر کے کرایے اور بینکوں سے لیے گئے قرض سے زیادہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ پاکستانی عوام حکومتوں کی نااہلی کے باعث مہنگی بجلی کا عذاب سہنے پر مجبور ہیں تو یورپی عوام بھی اپنے پالیسی سازوں کی کوتاہ بینی کی سزا بھگت رہے ہیں۔

ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مختلف یورپی ممالک میں 17000 خاندانوں سے بجلی کی مہنگائی کے حوالے سے سروے کیا گیا۔ سروے کے نتائج کے مطابق ہر خاندان کو یہ فکر لاحق تھی کہ بجلی کے نرخ اسی طرح بڑھتے رہے تو ان کے لیے بلوں کی ادائیگی ناممکن ہوجائے گی۔ کیا وجہ ہے کہ ترقی یافتہ یورپی ممالک کے باشندے بھی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے عوام کی طرح بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی فکر میں مبتلا ہوگئے ہیں؟

اس کی وجہ یورپی حکومتوں کے متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کے لیے شروع کیے جانے والے منصوبے ہیں۔ ان میں سے بیشتر منصوبے دھوپ اور ہوا سے بجلی بنانے سے متعلق ہیں۔ ’ گرین انرجی ‘ کے ان منصوبوں کے لیے فنڈز کی فراہمی کا زیادہ تر بوجھ حکومتوں نے عوام پر ڈال دیا ہے اور اس مد میں ان سے ماہانہ ایک مخصوص رقم وصول کی جارہی ہے۔

ان منصوبوں کا مقصد گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنا تھا مگر ان کے نتائج توقع کے برخلاف برآمد ہوئے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کا جن تو قابو میں آئے گا کہ نہیں مگر بجلی کے بلوں کا حجم تیزی سے وسیع ہورہا ہے کیوں کہ گرین انرجی کے منصوبوں کے لیے وصول کی جانے والی رقم بھی ان ہی بلوں میں شامل کردی جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستانی عوام سے ٹیلی ویژن رکھنے کی فیس بجلی کے بلوں میں شامل کرکے وصول کی جاتی ہے۔

جرمنی متبادل ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔ پچھلے دس برسوں میں جرمنی نے گرین انرجی کے منصوبوں پر 412 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ’ سبز انقلاب‘ کا دور دور تک پتا نہیں البتہ ان منصوبوں کے خالقوں کی کوتاہ بینی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو ان کے دور رس اثرات کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے۔

یورپ میں ’ سبز انقلاب ‘ کے حوالے سے ایڈیسن الیکٹرک انسٹیٹوٹ اور چند دوسرے یورپی اداروں کے لیے تیار کی گئی ایک رپورٹ کہتی ہے،’’ پچھلے دس برسوں میں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے ماہرین نے متبادل یا قابل تجدید توانائی سے متعلق ایسی پالیسیاں تخلیق کیں جو بہ تدریج غیرمفید ثابت ہورہی ہیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز پر ان کے گہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔‘‘

جرمن ذرائع ابلاغ  بجلی کو تعیشات میں شمار کرنے لگے ہیں کیوں کہ پچھلے تیرہ برسوں کے دوران اس کے نرخ دگنے ہوگئے ہیں۔ 2000 ء میں صارفین کوبجلی 0.14 یورو فی کلوواٹ آور کی شرح سے فراہم کی جارہی تھی۔ 2013ء میں یہ نرخ 0.29  یورو تک پہنچ گئے۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس جرمنی کے عوام گرین انرجی کے منصوبوں کے لیے 31.1 ارب ڈالر ’ فراہم ‘ کریں گے۔

جرمنی کے علاوہ اسپین، اٹلی اور کئی دوسرے ملکوں میں بھی یہی صورت حال ہے جہاں متبادل ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔

اسپین نے گذشتہ پچیس سال کے دوران ’ سبز توانائی‘ کی پیداوار بڑھانے پر 68 ارب ڈالر صرف کیے۔ پیداوار تو کیا بڑھی البتہ ملک پر قرضوں کا بوجھ ضرور بڑھ گیا۔ گذشتہ جولائی میں اسپین پر توانائی کے قرضوں کی مد میں 35 ارب ڈالر واجب الادا تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔