اوباما کا انٹرویو

نصرت جاوید  منگل 12 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے معاف کر دیں۔ اپنے اس کالم میں ہر گز میں اپنا اور آپ کا وقت اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ضایع نہیں کروں گا کہ 14 اگست کو کیا ہونے والا ہے۔ نواز شریف حکومت کے جو مسائل ہمیں ان دنوں نظر آ رہے ہیں ان کی کلید کچھ ایسے معاملات میں چھپی ہوئی ہے جنھیں جبلی طور پر پاکستان کا ذرا غور سے اخبارات پڑھنے والا شخص بھی پوری طرح جانتا ہے۔

میرے جیسے صحافی سے مفکر بننے کی کوشش کرنے والے لکھاریوں میں لیکن یہ ہمت ہی موجود نہیں کہ ان معاملات کو کھل کر بیان کر سکیں۔ منیرؔ نیازی کو مرنے کا شوق بھی تھا۔ میں لیکن اس کے خیالی شہر کی مشکل راہوں سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتا ہوں۔ ایک زمانے میں سارتر اور کامیو کی وجہ سے فلسفہ وجودیت کا ہمارے ہاں بہت ذکر ہوا کرتا تھا۔ اس حوالے سے میرے ذہن میں گوالمنڈی لاہور کے ایک بہت ہی مشہور ’’بونگ‘‘ بیچنے والے ’’حاجی صاحب‘‘ کا ایک فقرہ بھی محفوظ ہے۔

میں اکثر اسے اپنے قریبی دوستوں کی محفلوں میں دہرا کر انھیں محظوظ کیا کرتا ہوں۔ بدقسمتی سے اس فقرے کو خاندان کے ہر فرد کے لیے چھاپے گئے روزانہ اخبار میں نہیں لکھا جا سکتا۔ خیر فلسفہ وجودیت میں Bad Faith کا بہت ذکر ہوا کرتا تھا جو ان دانشوروں کی مذمت کرتا ہے جو سامنے کی حقیقتوں کو پوری طرح جانتے ہوئے بھی بیان کرنے کی جرأت نہیں دکھا پاتے۔ پنجابی زبان والا ’’دڑ وٹ کر‘‘ آئیں بائیں شائیں کرتے چلے جاتے ہیں۔

احمد فراز کو خود سے گلہ رہا کہ ’’تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘‘۔ میں بھی کافی کوشش کے باوجود آئیں بائیں، شائیں لکھنا نہ سیکھ پایا۔ خود کو سنجیدہ ثابت کرنا مگر کون پسند نہیں کرتا اور اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے میں آپ کو اطلاع دے رہا ہوں کہ ہمارے ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کے ساتھ جو ’’انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز‘‘ مجھے ملتا ہے میں اس کا ایک ایک لفظ بہت غور سے پڑھتا ہوں۔

اسی اخبار کا ایک معروف کالم نگار Thomas L. Friedman بھی ہے۔ اکثر اس کے لکھے مضامین کا میں اپنے کالم میں ذکر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ موصوف کی حال ہی میں امریکی صدر اوباما کے ساتھ ایک طویل گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو میں سے آن دی ریکارڈ چیزیں نکال کر ایک گھنٹے کی ویڈیو بھی “Face to Face with Obama” کے عنوان سے اس اخبار کی ویب سائٹ پر ڈال دی گئی ہے۔ کبھی وقت ملے تو دیکھ لیجیے گا۔

اوباما سے اپنی ملاقات کے حوالے سے فریڈمین نے ایک طویل کالم بھی لکھا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے کئی بار یہ گماں ہوا کہ امریکی صدر اپنے ملک کے بارے میں نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کا ذکر کر رہا ہے۔ حالانکہ اس پوری گفتگو میں کہیں میرے ملک کا ذکر تک نہ ہوا تھا۔ ساری توجہ فریڈمین نے اوباما سے یہ معلوم کرنے پر مرکوز رکھی کہ ایک سپر طاقت ہوتے ہوئے بھی امریکا مشرقِ وسطیٰ میں پائے جانے والے خونی بحران سے اتنا لا تعلق کیوں ہے۔

اس سوال کے جواب میں صدر اوباما نے بڑی دیانت داری سے اعتراف کیا کہ وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا سوچنے کے بجائے کہیں زیادہ فکرمند اس بات پر ہے کہ امریکا جیسا ملک جہاں کا سیاسی نظام کئی دہائیوں سے بڑا مستحکم اور طے شدہ ضوابط سے چل رہا تھا۔ ان دنوں ’’سیاسی طور پر مفلوج‘‘ ہو چکا ہے۔ اپنے سیاسی نظام میں افراتفری کی وجوہات گنواتے ہوئے اوباما نے دعویٰ کیا کہ امریکا کے سیاست دان Maximalist ہوچکے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ وہ مطالبات ہی ایسے پیش کرتے ہیں جن پر مذاکرات کے ذریعے سمجھوتوں کی کوئی صورت نکالی نہیں جا سکتی۔

دوسری بات اس نے یہ کہی کہ امریکی سیاست میں اب پیسہ بہت خرچ ہوتا ہے۔ اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے امریکی سرمایہ کار اپنی پسند کے سیاست دانوں کو بے تحاشہ سرمایہ فراہم کر دیتے ہیں۔ پیسے کی اس فراوانی کے ساتھ مشکل یہ بھی آ گئی ہے کہ امریکی میڈیا میں قومی مفادات کے حوالے سے اب کوئی Consensus موجود نہیں رہا۔ میڈیا کے اداروں میں مسابقت خوف ناک حدوں کو چھو رہی ہے اور میڈیا میں رونق لگائے رکھنے کی خاطر سیاست دان ’’تخت یا تختہ‘‘ والا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔

اپنی پریشانیوں کے اعتراف کے بعد اوباما نے بڑی تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ امریکی ریاست اور اس کی بے پناہ طاقتور فوج کو دوسرے ملکوں کے بحرانوں کو حل کرنے میں استعمال کیوں نہیں کر رہا۔ یہ بیان کرتے ہوئے اس نے قطعی انداز میں یہ دعویٰ کیا کہ کسی بھی معاشرے میں دور رس استحکام پیدا کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس کے لوگ خود فیصلہ کریں کہ انھیں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔ اپنی اور مخالفین کی تسلی کے لیے ضروری ہے کہ ’’سمجھوتے کرنے کی عادت اپنائی جائے‘‘۔

اس وقت دُنیا کی واحد سپر طاقت ہوئے بھی امریکا کسی اور ملک یا معاشرے کے لیے ’’یہ کام نہیں کر سکتا‘‘۔ فرض کیا کہ عراق یا شام میں خانہ جنگی رکوانے کے لیے وہ اپنی فوجی قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کر بھی لے تو وہاں موجود امریکی افواج صرف ’’وقتی طور پر‘‘ اُبلتے پانی کو ٹھنڈا کر سکتی ہیں۔ فوجی قوت مگر کسی بھی معاشرے کے اندر موجود گہرے اور تاریخی تضادات اور تعصبات کو ختم نہیں کر سکتی۔ بالآخر اس معاشرے کے سوچنے سمجھنے والوں اور سیاستدانوں کو ہی مل بیٹھ کر سوچنا پڑے گا کہ وہاں کوئی مستحکم سیاسی نظام کیسے قائم کیا جائے۔

اپنی جوانی کے کئی سال میں نے جلسے جلوسوں میں ’’امریکی سامراج مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے میں خرچ کیے ہیں۔ اوباما کا تفصیلی انٹرویو پڑھتے ہوئے مجھے بار ہا ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ اُلٹنے سے لے کر افغانستان تک بے شمار ایسے واقعات یاد آئے جہاں امریکی ریاست اپنی طاقت کے غرور سے اندھی ہوئی دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں بے دریغ مداخلت کرتی رہی۔ نظر بظاہر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اوباما کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد امریکی ریاست خود تنقیدی اور خود احتسابی کے ایک طویل عمل سے گزر رہی ہے اور ہمارے ہاں کے کئی بے تحاشہ پڑھے لکھے دانشور حضرات بھی اس بنیادی تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہے۔

مثال کے طور پر وطنِ عزیز میں جو کچھ 14 اگست 2014 کو ہونے جا رہا ہے اس کے ڈانڈے امریکا کی افغانستان سے واپسی وغیرہ سے ملانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم میں سے کوئی لکھاری بھی کھل کر اعتراف نہیں کر رہا کہ یہ افراتفری اور انتشار پھیلانے والے یہ سارے پنگے ہم خود لے رہے ہیں۔ لانگ مارچوں کے انتظام کے لیے بے تحاشہ سرمایہ کاری اور پھر میڈیا کے اداروں کے درمیان ریٹنگ اور Breaking News میں سبقت لے جانے کا جنون۔ اوباما کا انٹرویو غور سے پڑھیں تو سیاست کے حوالے سے ہم اور امریکا کافی ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔