سیاسی جماعتوں کا شعور

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 12 اگست 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے عوام یوم آزادی ایسے وقت منائیں گے، جب ملک میں آئین کے تحت ایک منتخب حکومت قائم ہے مگر انتخابی دھاندلیوں کے نام پر بحران پیدا کیا جا رہا ہے اور جمہوری نظام ایک دفعہ پھر خطر ے میں ہے، سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اور جمہوری شعور کا معیار بلند ہونے کی بناء پر عوام جمہوری حکومت کے تسلسل کے حامی ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت چوہدری برادران، شیخ رشید اور بعض مذہبی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا شعور اور عوامی حمایت ہی جمہوری نظام کا تحفظ کرے گی۔ موجودہ سیاسی نظام ختم ہوا تو ایک نئی تباہی آئے گی۔

جب1988میں عام انتخابات منعقد ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ ملک کی وزیر اعظم بنیں، پیپلز پارٹی نے تحریک بحالی جمہوریت میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی تھی مگر جب قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا اور ایم آر ڈی ختم ہو گئی۔

پیپلز پارٹی غلام اسحاق خان صدر اور فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ سے مفاہمت کر کے اقتدار میں آگئی، پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے تمام بڑی سیاسی جماعتیں متحد ہوئیں ان جماعتوں میں ایم آر ڈی میں شامل جماعتیں مثلاََ عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ بھی شامل تھیں، اس اتحاد کے سربراہ نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مصطفی جتوئی تھے جو بعد میں عبوری وزیر اعظم بنائے گئے۔ اس اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں نظیر بھٹو کی حکومت رخصت ہوئی، نئے انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب ہوئی۔ میاں نواز شریف پہلی دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔

آئی جے آئی کی اس حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال نے متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر کچھ عرصے بعدنوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں ایک اتحاد قائم ہوا، اس اتحاد میں پیپلز پارٹی، تحریک استقلال، مسلم لیگ قاسم گروپ ملک قاسم کی قیادت میں شامل تھی، اس اتحاد نے لانگ مارچ کا اعلان کیا، بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ خان، اصغر خان، ملک قاسم وغیرہ مختصر وقت کے لیے اسیر ہوئے، اس اتحاد نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھا دی اور ملک میں پہلی دفعہ عبوری حکومت کا تصور آیا،  معین قریشی مختصر عرصے کے لیے وزیر اعظم بنے، انھوں نے منتخب نمایندوں کے شفاف کردار کے تصور کو اجاگر کیا۔

1993کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں اس دفعہ منظور وٹو کی قیادت میں مسلم لیگ کا ایک گروپ پیپلز پارٹی سے مل گیا اور پنجاب میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں۔ پہلے تمام جماعتوں نے کراچی میں ہونے والے آپریشن کی حمایت کی پھر یہ سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کی حکومت پر ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کا الزام لگانے لگیں، پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کی خارجہ امور اور کشمیر کے امور کی کمیٹیوں کے سربراہوں کی حیثیت سے شامل تھے۔

اس بناء پر کوئی بڑا اتحاد نہیں بنا مگر صدر فاروق لغاری کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے اختلافات اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کرائی گئی، مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کا جشن منایا اور پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد عبوری وزیر اعظم بن گئے، عام انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب  ہوئی، میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بننے کا موقع ملا، کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی اور نواب زادہ نصر اللہ خان نے مسلم لیگی حکومت کو چیلنج کرنا شروع کیا، پیپلز پارٹی نے کراچی، لاہور وغیرہ میں جلسے جلوس کیے اور بے نظیر بھٹو کو ملک سے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔

آصف علی زرداری مسلسل جیل میں رہے، اس دفعہ سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف کوئی بڑا محاذ نہیں بنایا مگر کچھ جماعتوں کے رہنما خفیہ ایجنسیوں سے ہدایات لے رہے تھے اور جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا، جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے تو جماعت اسلامی کو احتجاج کا ٹارگٹ دیا گیا یہ افواہ پھیلائی گئی کہ جنرل مشرف نے بھارتی وزیر اعظم کو سلوٹ کرنے سے انکار کیا، جنرل مشرف نے اپنی برطرفی کے فیصلے کی آڑ لے کر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

سیاستدانوں کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملا اور  2006 میں لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا۔ اس میثاق میں صوبائی خود مختاری جیسے حساس معاملے کے علاوہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ منتخب جمہوری حکومتوں کی آئینی مدت مکمل ہونے سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہو سکتا ہے اور سیاسی جماعتوں کا حقیقی احتساب ہو سکتا ہے۔

اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں صوبے اور وفاق میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں گی۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور 2013 میں اپنی آئینی مدت مکمل کی، پہلی دفعہ اقتدار پر امن طور پر منتقل ہوا، مسلم لیگ کی حکومت 2013 میں قائم ہوئی، میاں نواز شریف نے کی پی کے تحریک انصاف بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔

اب عمران خان انتخابی دھاندلیوں اور حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں اور مڈ ٹرم انتخابات کرنے کے خواہاں ہیں، انتخابی دھاندلیوں کے خاتمے کے لیے انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں انتخابی اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی قائم ہو چکی ہے جس میں تحریک انصاف کے اراکین بھی شامل ہیں، انتخابی دھاندلیوں کا حل اور انتخابی دھاندلیوں میں ملوث افراد کی سزا کا معاملہ انتخابی اصلاحات سے منسلک ہے، عمران خان اس کمیٹی کے ذریعے دھاندلیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون سازی کر سکتے ہیں۔

عمران خان مائل بہ احتجاج  ہیں کہ انتخابی ٹریبونل نے انتخابی عذرداریوں کے ایک سال میں فیصلے نہیں کیے انھیں اگر موقع ملے اور وہ عدالتی نظام کا مطالعہ کریں تو اس حقیقت کو محسوس کرے گی کہ ٹریفک حادثات سے متعلق مقدمات کا فیصلہ چار سے پانچ سال میں ہونا ہے تو ان مقدمات کا فوری فیصلہ ممکن نہیں۔ انتخابی عذرداریوں کے سرسری سماعت کی عدالتوں کے قیام کا معاملہ میں قانون سازی کے لیے مشروط ہے پھر کسی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ایک سال میں فیصلہ نہیں ہو سکتا اگر اس اصول کو مان لیا گیا تو کوئی بھی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکے گی۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو بھارت سے دوستی اور منتخب حکومت کی مقتدر اداروں پر بالادستی کی خواہش کی سزا دی جا رہی ہے، 1977میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی یاد تازہ کی جا رہی ہے جب انتخابی دھاندلیوں کی آڑ میں پی این اے نے تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت قائم ہوئی، اگر جمہوری نظام ختم ہو گیا تو بقول سینیٹر حاصل بزنجو کے ملک کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے اور سانحہ ہوا تو سیاستدانوں کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہ ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔