اقبال کا تصور پاکستان

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 12 اگست 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

رمضان المبارک اور اگست دونوں ہی ماہ قیام پاکستان کی یاد تازہ کرتے ہیں، قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے آج بھی بعض ناقدین اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ان ناقدین میں ایک نقطہ نظر یہ پایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان درحقیقت انگریزوں کی ضرورت تھا اور انگریزوں نے اپنے فائدے کے لیے جاگیرداروں اور نوابوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی۔ ایک مرحوم محقق نے اپنے تحقیقی مقالوں میں یہ بات بیان کی کہ انگریزوں نے ہندوستان کے ’’سلیریا‘‘ (تنخواہ دار طبقے) کو بھی استعمال کیا اور قیام پاکستان بلکہ اس کے بعد کے حالات میں بھی اس طبقے کا مفاداتی کردار شامل رہا ہے۔

تنقید کا حق یقیناً اپنی جگہ ہوتا ہے لیکن واقعات کا اگر کلی طور پر جائزہ لیا جائے تو حقائق تک پہنچنے اور بہتر رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ راقم نے گزشتہ یوم آزادی کے موقعے پر قائد اعظم کے ان ارشادات کا مختصراً جائزہ پیش کیا تھا جن کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اسلامی یا سیکولر اسٹیٹ بنانے کی خواہشات اکثر منظر عام پر آتی رہتی تھیں اور بحث مباحثے بھی چلتے رہتے تھے، آج بھی جاری ہیں مذکورہ کالم میں راقم نے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ قائد اعظم کے ان ارشادات کی تعداد محض انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے کہ جن سے پاکستان کو سیکولر ریاست کا رنگ دینے کے اشارات ملتے ہیں یا اس کا مفہوم اخذ کیا جاتا ہے جب کہ اسلامی ریاست کے حوالے سے قائد اعظم کے بے شمار اور واضح ارشادات ملتے ہیں۔

اس حوالے سے آج ایک اور اہم ترین بات یہاں بیان کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے، اس سے اختلاف کرنے کا حق ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اگر اختلاف کرنے سے قبل حقائق تک پہنچنے کے لیے تھوڑی بہت تحقیق کر لی جائے تو حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔ یہ بات حضرت علامہ اقبال کے حوالے سے ہے عام قارئین تو شاید نہیں لیکن پاکستان اور تاریخ کے طالب علم اور صاحب مطالعہ ضرور اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ علامہ اقبال اپنی عمر کے اس حصے میں جب علیحدہ ریاست کے قیام کی کوشش کر رہے تھے چاہتے تھے کہ اس ریاست کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق ایک جماعت بھی قائم ہو تا کہ درست معنوں میں ایک اسلامی ریاست چلانے کے اسباب پیدا ہو سکیں۔

اس حوالے سے حافظ عاطف سعید اپنی مختصر سی تالیف ’’علامہ اقبال کی آخری خواہش جو بوجوہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’اپنی حیات دنیوی کے آخری حصے میں حضرت علامہ ’’مسلمانوں کے عروج و اقبال‘‘ اور ’’اعلاء کلمۃاللہ‘‘ کی خاطر خالص اسلامی اصولوں یعنی بیت کی بنیاد پر قائم ہونے والی ایک ایسی انقلابی جماعت کی تشکیل کی سر توڑ کوشش بھی کرتے رہے جو محض نام کے مسلمانوں پر نہیں بلکہ ’’فدا کاروں‘‘ پر مشتمل ہو۔ علامہ اقبال اپنی کوششوں میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن تشکیل جماعت کے بالکل آخری مرحلے پر پہنچ کر بعض وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ رک گیا اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

بقول حافظ عاطف سعید حیات اقبال کا یہ گمشدہ اور فراموش کردہ ورق ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم کی ایک کتاب ’’علامہ اقبال اور مسلمانوں کا سیاسی نصب العین‘‘ کے ذریعے منظر عام پر آیا جس کو آل انڈیا پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس نے شایع کیا۔

حافظ عاطف سعید آگے مزید لکھتے ہیں کہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کے بعد ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے اس خطبے سے متاثر ہو کر جماعت مجاہدین علی گڑھ کے نام سے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جماعت کی تشکیل کا جامع منصوبہ تیار کیا تا کہ علامہ اقبال کے تجویز کردہ نصب العین کے حصول کے لیے منظم جدوجہد کی جا سکے اس کے ابتدائی قدم کے طور پر انھوں نے ایک جامع دستاویز تیار کی جس میں جماعت مجاہدین کے قیام کی غرض و غایت سے لے کر اس کے تنظیمی ڈھانچے تک تمام تفصیلات شامل تھیں۔ اس دستاویز کا پہلا حصہ علامہ اقبال کے خطبے الٰہ آباد ہی کی مزید تشریح و توضیح پر مشتمل تھا۔

محترم حافظ عاطف نے اپنی اس تالیف میں آگے چل کر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی تالیف ’’علامہ اقبال اور مسلمانوں کا سیاسی نصب العین‘‘ سے مزید تفصیلات و اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی مکمل حمایت و تائید ڈاکٹر ظفر الحسن کو حاصل تھی اور ان میں اس مقصد کے حصول کے لیے ملاقاتیں اور خط و کتابت بھی جاری تھی جب کہ ڈاکٹر ظفر الحسن نے نظم جماعت کے سلسلے میں جمہوریت یا جمہوری اصولوں کو سرے سے درخور اعتنا نہ سمجھا بلکہ ان کا نظریہ تھا کہ ’’مسلمانوں کو منظم کرنے کا وہی ایک صحیح اصول ہے جس پر اسلام آغاز میں منظم ہوا تھا، مسلمانوں کا ایک امیر ہونا چاہیے اور ان کی ایک مجلس شوریٰ ہونی چاہیے اور قوم کو پابند ہونا چاہیے امیر کے احکام کا۔‘‘

اب آئیے ایک نظر خطبہ الٰہ آباد کی طرف، علامہ اقبال اس خطبے میں فرماتے ہیں:

’’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے تو برقرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کے بجائے ان قومی نظاموں کو اختیار کر لیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اس کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے پر آمادہ نہ ہو گا جو اسلام کے اصولوں کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔‘‘

’’ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔‘‘

سیکولر پاکستان کی بات کرنے والوں کے لیے خطبہ الٰہ آباد کے یہ الفاظ بھی بہت کچھ پیغام دے رہے ہیں کہ:

’’میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عرب ملوکیت کی وجہ سے اس پر اب تک قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائے گی۔‘‘

ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے تصور کے حوالے سے اقبال اپنے اشعار میں بھی بہت کچھ کہہ گئے مثلاً

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

آئیے! اس ملک کو علامہ اقبال کے حقیقی تصور سے ہم آہنگ کرنے کی اپنے اپنے طور پر کوشش کریں خواہ وہ ننھی سی ہی کوشش کیوں نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔